اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق سینیئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی جس کو براہِ راست نشر کیا گیا۔
سماعت کرنے والے 5 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت بھی شامل ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ان کے وکیل حامد خان نے عدالت کے روبرو موقف پیش کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ ایک فون پکڑ کر اور یوٹیوب چینل بنا کر صحافی بن کر بیٹھ جاتے ہیں، میں نے کسی جج کو بینچ سے نہیں ہٹایا، جو دو ججز اس بینچ میں شامل نہیں ہیں وہ اپنی مرضی سے اس بینچ میں نہیں بیٹھے، آپ کو ہم میں سے کسی جج پر تو اعتراض ہے تو پہلے ہی بتا دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ویسے بھی آج کل اعتراض کا زمانہ ہے۔ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ مجھے اس بینچ میں شامل کسی بھی جج پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سابق بینچ کے 3 ارکان ریٹائر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ سرکار کی طرف سے کون ہے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل جاوید وینس روسٹرم پر آ گئے جبکہ وفاقی حکومت نے شوکت عزیز صدیقی کی درخواستیں قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کی درخواستیں قابلِ سماعت ہونے کی مخالفت کرتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کا وہ بیان پڑھ کر سنایا جس کی بنیاد پر انہیں برطرف کیا گیا تھا؛ میرے چیف جسٹس کو اُس وقت کے آئی ایس آئی کے آفیسر نے اپروچ کیا اور کہا کہ الیکشن تک نواز شریف اور ان کی بیٹی کو جیل سے باہر نہیں آنے دینا، میں نے یہ باتیں نوکری اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بیان کیں، مجھے کہا گیا کہ آپ ہمیں یقین دہانی کرا دیں تو ہم آپ کے ریفرنسز ختم کروا دیں گے، پاکستان کی موجودہ حالت کی پچاس فیصد ذمہ دار عدلیہ ہے، اللّٰه تعالٰی کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ مجھے نہ کبھی نوکری کی پرواہ رہی ہے اور نہ ہی نوکری کی خاطر عہدہ قبول کیا، بدقسمتی ہے کہ جسٹس منیر کا کردار کچھ عرصہ بعد پھر سے زندہ ہو کر واپس آ جاتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے آئی ایس آئی تو پورا ایک ادارہ ہے، آپ ان اشخاص کے نام بتائیں، کیا آپ پورے ادارہ پر الزام لگا رہے ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کا الزام ایک شخص پر ہے یا ادارے پر؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ میں نے متفرق درخواست میں جنرل (ر) فیض حمید اور آئی ایس آئی کے ایک بریگیڈیئر کا ذکر کیا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر آپ شخصیات پر الزام لگا رہے ہیں تو انہیں کیس میں فریق کیوں نہیں بنایا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ادارے بُرے نہیں ہوتے بلکہ ان میں کچھ لوگ بُرے ہوتے ہیں، ہمارے ملک کی تباہی کی وجہ یہ ہے کہ ہم شخصیات کو بُرا بھلا نہیں کہتے بلکہ ہم اداروں کو بُرا کہنا شروع کر دیتے ہیں، یہ فیشن چل نکلا ہے کہ اداروں کو بدنام کیا جائے، اداروں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور بُرے لوگ بھی ہوتے ہیں جیسے وکیلوں میں اچھے وکیل بھی ہوتے ہیں اور بُرے وکیل بھی ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اگر کسی کردار پر الزام لگا رہے ہیں تو اسے بھی پارٹی بنانا پڑے گا کیونکہ ہم اسے بھی سننا چاہیں گے اور اسے نوٹس جاری کیا جائے گا، میرا اصول ہے کہ جس پر الزام لگاؤ اس کو بھی سنو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ الزامات کو تسلیم کر لے، اگر آپ کسی شخص کو فریق نہیں بناتے تو اس شخص کا نام مت لیجیے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی فیض حمید سمیت دیگر کو کیس میں فریق بنانے کیلئے ایک روز کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے۔