اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کر دی، خصوصی عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رہے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف سے متعلق کیسز کی سماعت کی جبکہ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل تھے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کی مخالفت کی گئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں۔
دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 12 کے تحت پرویز مشرف کے ساتھ ملوث تمام افراد کے خلاف عدالتی دروازے کھلے ہیں، اگر 1999 کی ایمرجنسی کی تحقیقات ہوتیں تو 3 نومبر کا اقدام نہ ہوتا۔
پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں پرویز مشرف تنہا ملوث نہیں تھے بلکہ اس وقت کے وزیراعظم، وزیرِ قانون، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے ججز بھی ملوث تھے، خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنے بغیر سزا دی، ایک شخص کو پورے ملک کے ساتھ ہونے والے اقدام پر علیحدہ کر کے سزا دی گئی۔
تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی اپیل مسترد کر دی، خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ عدم پیروی پر برقرار رکھا گیا، سپریم کورٹ کے مطابق پرویز مشرف کے ورثاء نے متعدد نوٹسز پر بھی کیس کی پیروی نہیں کی۔
عدالتِ عظمٰی کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا فیصلہ قانون کے منافی قرار دے دیا، گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے تھے کہ لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں وہ ریلیف دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا۔
یاد رہے کہ 17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت کے جج سیٹھ وقار نے سابق ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کو آئین شکنی کے مقدمہ میں آرٹیکل 6 کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔