لندن (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) کے مطابق عمران خان نے پاکستان میں اپنی طرزِ سیاست سے خاندانوں کو تقسیم کر دیا ہے جبکہ خاندانوں کے اندر رشتوں اور تعلقات میں فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔
بی بی سی نے لکھا ہے کہ اگرچہ خاندانوں اور دوستوں کے درمیان سیاسی اختلافات کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں کسی بھی سیاستدان نے لوگوں کے باہمی تعلقات میں اتنی دراڑیں نہیں ڈالیں جتنی سابق کرکٹر عمران خان نے پیدا کی ہیں۔
لندن میں قائم نشریاتی ادارہ نے لکھا ہے کہ عمران خان کو کرپشن کے خلاف لڑنے اور معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے چنا گیا تھا تاہم اس حوالہ سے پاکستانیوں بڑی تعداد کو مایوسی ہوئی کیونکہ عمران خان کے معاشی اور انسدادِ بدعنوانی کے وعدے کھوکھلے ثابت ہوئے۔
اپریل 2022 میں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد عمران خان کو متعدد مقدمات کا سامنا ہے جبکہ کئی مقدمات میں انہیں مجرم قرار دے کر سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں جس کے باعث وہ جمعرات کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار پائے ہیں۔
برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کے مطابق یہ رائے بہت وسیع پیمانے پر موجود ہے کہ ملکی سیاسی میدان میں عمران خان پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے باعث نمایاں ہوئے لیکن حکومت میں آنے کے بعد پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ کی تقرری میں اختلافات کے بعد فوجی قیادت کے ساتھ عمران خان کے تعلقات خراب ہو گئے۔
عمران خان چار برس تک حکومت میں رہے اور پھر پارلیمنٹ نے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعہ انہیں اقتدار سے نکال دیا جبکہ اس بارے میں عمران خان نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے پیچھے امریکہ کی ایک غیر ملکی سازش تھی، عمران خان نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف سازش میں پاکستان کی فوج بھی شامل تھی تاہم پاکستانی فوج اور امریکہ دونوں کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا گیا۔
دسمبر میں ایک گیلپ سروے کے مطابق عمران خان 57 فیصد عوام کیلئے قابلِ قبول ہیں جبکہ نواز شریف 52 فیصد مقبولیت کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے، گزشتہ ماہ بلومبرگ کے سروے میں کچھ پاکستانی فنانس پروفیشنلز کی جانب سے عمران خان کو ملک کی ناکام معیشت کو چلانے کیلئے بہتر قرار دیا گیا تاہم عمران خان اب الیکشن کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔
بی بی سی نے لکھا ہے کہ مبصرین کی رائے کے مطابق عمران خان کی سیاست ہنگامہ آرائی اور پاپولزم سے زیادہ کچھ نہیں ہے جبکہ عمران خان کا طرزِ حکمرانی غیر ذمہ دارانہ رویوں اور فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ غیر ضروری تنازعات سے بھرپور ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کا سب سے بڑا جرم پاکستانی فوج سے ٹکراؤ تھا اور عمران خان نے فوج کے اندر وفاداریوں کو بھی تقسیم کر دیا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارہ نے لکھا ہے کہ کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران کے مطابق انہیں عمران خان کے اقتدار سے بےدخل ہونے کے بعد پھنسایا گیا، کچھ دیگر افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی پنشنز اور سرکاری مراعات بھی معطل کر دی گئی ہیں جبکہ انہیں مزید کارروائیوں کا بھی خدشہ لاحق ہے، ان معاملات کے بعد بہت سارے ریٹائرڈ افسران خاموش ہو گئے ہیں۔
گزشتہ برس فوج کے ترجمان نے بیان دیا تھا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران ادارہ کیلئے اثاثہ ہیں تاہم وہ کسی صورت قانون سے بالاتر نہیں ہیں، فوج کے ترجمان نے انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران ایسی کسی تنظیم میں شامل نہ ہوں جو سیاست کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔
برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے لکھا ہے کہ عمران خان کے الیکشن کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد ان کی جماعت تحریکِ انصاف کو ایک اور بڑا دھچکا لگا جس کی وجہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بلے کے انتخابی نشان پر پابندی عائد ہونا تھی اور ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کو مؤثر طریقے سے غیر مؤثر کر دیا گیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) کے مطابق عمران خان کی وجہ سے پاکستان کے اندر سیاسی تقسیم مسلسل مزید گہری ہو رہی ہے۔