اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف زیرِ سماعت کیسز سے متعلق فیصلوں کا پہلے سے علم تھا، جنرل (ر) فیض حمید وہ کیسز میرے پاس لا کر اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے تھے، میں نے انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ اس طرح ہماری دو سالوں کی محنت ضائع ہو جائے گی، میں آج بھی اپنے الزامات پر شفاف تحقیقات چاہتا ہوں۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں سب سے پہلے اللّٰه تعالٰی کا شکر ادا کرتا ہوں اور پھر ان تمام لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس سارے عرصہ کے دوران میری آواز بنتے رہے اور حق و سچ کی بات کرتے رہے، میں اپنے وکلاء اور پاکستانی قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میں فاضل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور بینچ کے دیگر چار ججز کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ میرے لیے سب سے اہم ونڈیکیشن تھی اور میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس لحاظ سے بالکل مطمئن ہوں، عدالتِ عظمٰی نے یہ قرار دیا ہے کہ میرے خلاف ثاقب نثار کے تحت جو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی گئی وہ بدنیتی پر مبنی تھی، میرے لیے آج اس لحاظ سے فتح کا دن ہے کہ 2018 کی جوڈیشری اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو ایک تال میل تھا اور جو انڈرسٹینڈنگ تھی اس سے متعلق میری سچائی واضح ہو گئی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میرے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر میرے الزامات سچ ثابت ہوتے ہیں تو ان سب عناصر کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں نے 22 جولائی 2018 کو چیف جسٹس ثاقب نثار کو ایک خط لکھا تھا کہ میری تقریر اور الزامات پر کمیشن بنایا جائے جس میں کوئی ایسا حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج شامل ہو جس نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو اور اگر میرے الزامات غلط ثابت ہوں تو مجھے پھانسی دے دی جائے اور اگر میرے الزامات درست ثابت ہوں تو پھر آپ مین ان یونیفارم کا کیا کریں گے؟ مجھے اور میری فیملی کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم میں آج بھی اپنے مؤقف پر قائم ہوں اور آج بھی تیار ہوں کہ کوئی بھی اتھارٹی یا فورم جوڈیشل کمیشن یا انکوائری کمیشن تشکیل دے کر میرے الزامات پر تحقیقات کر لے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جنرل (ر) فیض حمید سے 2018 میں میری دو ملاقاتیں ہوئیں جبکہ دونوں ملاقاتیں جنرل (ر) فیض حمید کی درخواست پر ہوئیں اور دونوں ملاقاتیں میری رہائش گاہ پر ہوئیں، تب میاں نواز شریف کے خلاف اکاونٹبلٹی کورٹ میں کیس جاری تھا مگر جنرل (ر) فیض حمید کو اس حوالہ سے فیصلہ کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا، جنرل (ر) فیض حمید نے کہا تھا کہ سزا ہونا تو طے ہے تاہم صرف سزا کا تعین ہونا باقی ہے، جنرل (ر) فیض حمید چاہتے تھے کہ یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں جائے جس کو میں لیڈ کروں اور نواز شریف کے خلاف فیصلہ سناؤں۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں نے جنرل (ر) فیض حمید کو بتا دیا تھا کہ میں میرٹ پر فیصلہ سناؤں گا اور کسی کی دنیا بنانے یا بگاڑنے کیلئے اپنی عاقبت خراب نہیں کروں گا، اس پر جنرل (ر) فیض حمید نے کہا کہ “اس طرح تو ہماری دو سالوں کی محنت ضائع ہو جائے گی”، جنرل (ر) فیض حمید نے کہا کہ “آپ کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑ گئے ہیں؟ میرے باس نے کہا ہے کہ تم سے ایک ہائی کورٹ کا جج ڈیل نہیں ہو رہا، میں نے دو تین پہلے آپ کے پاس آنا تھا لیکن مجھے اچانک کراچی جانا پڑا کیونکہ ایم کیو ایم کے لوگ کچھ گڑ بڑ کر رہے تھے اور میں ان کا سکریو ٹائٹ کرنے گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج کا کہنا تھا کہ میرے حوالہ سے تقریباً پورے سال کا روسٹر جاری ہو چکا تھا جبکہ تمام کرمنل کیسز میرے پاس زیرِ سماعت تھے تاہم اچانک مجھے کوئی وجہ بتائے بغیر تمام کیسز سے بٹا دیا گیا، میں نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ اوپر والوں کا حکم تھا، میں نے دوسری ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ نیب کی لیگل ٹیم اور اس معاملہ کو ڈیل کرنے والے دیگر افراد کی بھی یہ رائے تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے پاس پاناما سے متعلق کوئی کیس نہیں جانا چاہیے لہذا ہم نے چیف جسٹس کو اپروچ کر کے آپ کو بینچز سے ہٹا دیا۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اس وقت جوڈیشری اور اسٹیبلشمنٹ کا جو بندھن تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا بلکہ دونوں کے درمیان بار بار “قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے” ہو رہا تھا، مجھے قبل از وقت چیف جسٹس بنائے جانے کی بھی پیشکش کی گئی لیکن اس کیلئے مجھے اپنا ضمیر گروی رکھنا پڑنا تھا جو کہ میں نہیں رکھ سکتا تھا، جب ایک جج اپنا ضمیر یا قلم اسٹیبلشمنٹ کے پاس گروی رکھ دے گا تو پھر وہ انصاف کیسے کر سکے گا؟
انہوں نے انکشاف کیا کہ میں نے چیف آف آرمی سٹاف تک پیغام پہنچایا کہ آپ کے لوگ اس طرح معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں، پھر میں نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی بتایا اور تین بار ان سے ملاقات کی گزارش کی تاہم انہوں نے وقت نہیں دیا، میرے پاس دو طریقے تھے کہ پریس کانفرنس بلا لوں یا وکلاء سے جا کر بات کروں، جب راولپنڈی بار نے مجھے لیکچر کی دعوت دی تو میں نے وہیں سب کچھ بیان کر دیا، تب تاثر یہ تھا کہ اگر میں ثاقب نثار کو کوئی بات بتاتا ہوں تو وہ فوجیوں کو بلا کر بتا دیں گے کہ ہمارا بندہ یہ کر رہا ہے لہذا اس کا مکو ٹھپ دیں۔