اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب مجھ پر دباؤ آیا تو جسٹس گل حسن اورنگزیب کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی بھی جج میرے ساتھ کھڑا نہ ہوا بلکہ تمام ججز نے میرا سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید ڈی جی سی تھے اور وہ دو بار میرے گھر آئے، وہ چاہتے تھے کہ میں نواز شریف اور مریم نواز سے متعلق کیسز کی اپیلز کے بینچز کی سربراہی کروں اور جنرل (ر) فیض حمید کی مرضی کے مطابق فیصلے سناؤں، وہ میرے ذریعہ فیصلے سنا کر ان فیصلوں کو معتبر بنانا چاہتے تھے تاہم میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس پر جنرل (ر) فیض حمید نے کہا کہ اس طرح تو ہماری دو سالوں کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ جب میرے اوپر پریشر آیا تو جسٹس گل حسن اورنگزیب کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی ایک جج بھی میرے ساتھ کھڑا نہ ہوا بلکہ تمام ججز نے میرا سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا جبکہ اس تمام صورتحال کے بینفیشری جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی تھے، میری بیٹی کی شادی کی تقریب میں کسی ایک جج نے بھی شرکت نہ کی، حتیٰ کہ کسی جج نے فون کال پر بھی مبارکباد نہ دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ میری رائے کے مطابق یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کی حدود میں نہیں آتا بلکہ یہ سپریم کورٹ کے پاس بھیجا جانا چاہیے تھا۔