spot_img

Columns

Columns

News

Pakistan stock market surges as KSE 100 crosses 107,000 points

The KSE 100 Index crosses 107,000 points, marking a historic milestone for Pakistan’s stock market, driven by bullish trends and growing investor confidence.

پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی: کے ایس ای 100 انڈیکس 107,000 پوائنٹس کی حد عبور

پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے ایک اور اہم سنگِ میل عبور کر لیا، جہاں کے ایس ای 100 انڈیکس 107,109 پوائنٹس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ 2,000 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ، کاروباری حجم 51 کروڑ شیئرز سے تجاوز کر گیا، جو ملکی معیشت پر سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد کا مظہر ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی گرفت کمزور: وزیرِاعظم میشل بارنیئر کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب

فرانسیسی پارلیمنٹ میں وزیرِاعظم میشل بارنیئر کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب۔ ایک غیرمعمولی اتحاد کے ذریعے میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت "نیشنل ریلی" نے بائیں بازو کے اتحاد کے ساتھ مل کر بارنیئر کی حکومت کو گرا دیا۔ صدر مینوئل میکرون سخت مشکلات کا شکار۔

Macron’s fragile hold as France ousts Barnier in confidence vote

France’s Parliament ousts Michel Barnier in a no-confidence vote, sparking fresh political turmoil as Marine Le Pen’s influence rises and Macron faces mounting instability.

UnitedHealthcare CEO fatally shot in targeted Manhattan shooting

UnitedHealthcare CEO Brian Thompson was fatally shot in a targeted Midtown Manhattan shooting. Police are investigating the gunman’s motive and escape route.
Opinionانصاف کا نظام یا پاپولسٹ نظام؟
spot_img

انصاف کا نظام یا پاپولسٹ نظام؟

کیا ججز کو آئین و قانون کی بجائے پاپولزم کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہئیں؟ کیا کسی مجرم کو اس بنیاد پر ماورائے قانون ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ملین فالورز ہیں؟ پاپولزم کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر بھی سوالات بن کر سامنے آتے ہیں۔

Raza Butt
Raza Butt
Raza Butt is the editor of The Thursday Times.
spot_img

پاکستانی عوام عدالتی تنازعات سے ہر گز اجنبی نہیں، حالیہ برسوں میں بھی عدالتی معاملات مسلسل توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ بانی تحریکِ انصاف عمران خان سے متعلق اہم مقدمات میں چند ججز کا رویہ غیر معمولی رہا ہے اور انھی ججز میں سے ایک جسٹس اطہر من اللہ ہیں جن کی جانب سے ملک کے دو بڑے سیاسی راہنماؤں سے متعلق دیئے گئے متضاد ریمارکس اور فیصلے ان کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال نیب ترامیم سے متعلق کیس میں عمران خان کو لائیو دکھائے جانے سے متعلق پٹیشن کے بارے میں ان کا اختلافی نوٹ ہے۔

نواز شریف کیس؛
جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے، ہیومن رائٹس کمیشن اور سینئر صحافیوں نے درخواست دائر کی تو عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کیے جانے کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا؛
جو قانون ایک آدمی کیلئے ہو گا اس کا اطلاق سب پر ہو گا، نواز شریف کی تقاریر پر پابندی سے کوئی حقوق متاثر نہیں ہوئے، درخواست گزار مطمئن نہیں کر سکا کہ نواز شریف کے کون سے حقوق متاثر ہوئے ہیں۔

عمران خان کیس؛
وقت کا پہیہ گھوم گیا، نواز شریف کیس میں بنیادی حقوق متاثر نہ ہونے اور قانون کے سب پر برابر اطلاق کا فیصلہ دینے والے جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے جب عمران خان سے متعلق ایسی ہی ایک پٹیشن آئی تو وہ اپنے پچھلے دیئے گئے فیصلے کے برعکس لکھتے ہیں؛
عمران خان ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ان کے کئی ملین فالورز ہیں، وہ کوئی عام قیدی نہیں ہیں، اُنہیں لائیو دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں، بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے ایسے مقدمات براہِ راست نشر کرنا ضروری ہیں۔

کیا یہ انصاف کا دوہرا معیار نہیں؟ جو انصاف نواز شریف کیلئے نشریات براہِ راست دکھانے کو غلط سمجھتا تھا آج وہی انصاف عمران خان کیلئے براہِ راست نشریات کو جائز قرار دے رہا ہے. کیا انصاف کا دارومدار کیس کی بجائے پسندیدگی پر ہونا چاہیے؟ کیا کسی جج کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ محض اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر حلال اور حرام کے متضاد فتوے جاری کرتا پھرے؟

یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ججز کو آئین و قانون کی بجائے پاپولزم کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہئیں؟ کیا کسی مجرم کو اس بنیاد پر ماورائے قانون ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ملین فالورز ہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ میں قانون کی بجائے مقبولیت کو بنیاد بنایا گیا ہے جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں بیٹھے ایک منصف کو زیب نہیں دیتا کیونکہ جب فیصلے آئین و قانون کی بجائے پاپولزم کی بنیاد پر ہوتے ہیں تو اس سے ایک طرف جمہوری نظام متاثر ہوتا ہے اور دوسری طرف سیاسی عدم استحکام بھی پیدا ہوتا ہے۔

پاپولزم کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر بھی سوالات بن کر سامنے آتے ہیں، ایسے فیصلوں سے عدالتوں میں بیٹھے منصفوں کو سیاسی طور پر متعصب اور مخصوص سیاسی فریق کے آلہ کار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ایسے فیصلے جمہوری اصولوں کو مجروح کرتے ہوئے عدل و انصاف کے نظام کو کمزور کر دیتے ہیں۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ایسے ریمارکس اور فیصلوں کی ایک فہرست موجود ہے، اس سے قبل بھی عمران خان کو عدالتوں کی جانب سے خصوصی پروٹوکول اور ریلیف فراہم کیا جاتا رہا ہے، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت میں جب عمران خان پیش ہوئے تو عدالتِ عظمٰی کے منصفِ اعظم کی جانب سے ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر استقبال کیا گیا اور کمرہِ عدالت میں بولے گئے اس جملے نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔

نظامِ انصاف کے ایسے تضاد میں سازشی نظریات کے شعلے بھڑکتے دکھائی دیتے ہیں، عدلیہ کی ایسی جانبداری اور تضادات کی وجہ سے ہی عام آدمی کا عدالتی نظام پر اعتماد دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: