پاکستانی عوام عدالتی تنازعات سے ہر گز اجنبی نہیں، حالیہ برسوں میں بھی عدالتی معاملات مسلسل توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ بانی تحریکِ انصاف عمران خان سے متعلق اہم مقدمات میں چند ججز کا رویہ غیر معمولی رہا ہے اور انھی ججز میں سے ایک جسٹس اطہر من اللہ ہیں جن کی جانب سے ملک کے دو بڑے سیاسی راہنماؤں سے متعلق دیئے گئے متضاد ریمارکس اور فیصلے ان کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال نیب ترامیم سے متعلق کیس میں عمران خان کو لائیو دکھائے جانے سے متعلق پٹیشن کے بارے میں ان کا اختلافی نوٹ ہے۔
نواز شریف کیس؛
جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے، ہیومن رائٹس کمیشن اور سینئر صحافیوں نے درخواست دائر کی تو عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کیے جانے کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا؛
جو قانون ایک آدمی کیلئے ہو گا اس کا اطلاق سب پر ہو گا، نواز شریف کی تقاریر پر پابندی سے کوئی حقوق متاثر نہیں ہوئے، درخواست گزار مطمئن نہیں کر سکا کہ نواز شریف کے کون سے حقوق متاثر ہوئے ہیں۔
عمران خان کیس؛
وقت کا پہیہ گھوم گیا، نواز شریف کیس میں بنیادی حقوق متاثر نہ ہونے اور قانون کے سب پر برابر اطلاق کا فیصلہ دینے والے جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے جب عمران خان سے متعلق ایسی ہی ایک پٹیشن آئی تو وہ اپنے پچھلے دیئے گئے فیصلے کے برعکس لکھتے ہیں؛
عمران خان ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ان کے کئی ملین فالورز ہیں، وہ کوئی عام قیدی نہیں ہیں، اُنہیں لائیو دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں، بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے ایسے مقدمات براہِ راست نشر کرنا ضروری ہیں۔
کیا یہ انصاف کا دوہرا معیار نہیں؟ جو انصاف نواز شریف کیلئے نشریات براہِ راست دکھانے کو غلط سمجھتا تھا آج وہی انصاف عمران خان کیلئے براہِ راست نشریات کو جائز قرار دے رہا ہے. کیا انصاف کا دارومدار کیس کی بجائے پسندیدگی پر ہونا چاہیے؟ کیا کسی جج کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ محض اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر حلال اور حرام کے متضاد فتوے جاری کرتا پھرے؟
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ججز کو آئین و قانون کی بجائے پاپولزم کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہئیں؟ کیا کسی مجرم کو اس بنیاد پر ماورائے قانون ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ملین فالورز ہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ میں قانون کی بجائے مقبولیت کو بنیاد بنایا گیا ہے جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں بیٹھے ایک منصف کو زیب نہیں دیتا کیونکہ جب فیصلے آئین و قانون کی بجائے پاپولزم کی بنیاد پر ہوتے ہیں تو اس سے ایک طرف جمہوری نظام متاثر ہوتا ہے اور دوسری طرف سیاسی عدم استحکام بھی پیدا ہوتا ہے۔
پاپولزم کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر بھی سوالات بن کر سامنے آتے ہیں، ایسے فیصلوں سے عدالتوں میں بیٹھے منصفوں کو سیاسی طور پر متعصب اور مخصوص سیاسی فریق کے آلہ کار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ایسے فیصلے جمہوری اصولوں کو مجروح کرتے ہوئے عدل و انصاف کے نظام کو کمزور کر دیتے ہیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ایسے ریمارکس اور فیصلوں کی ایک فہرست موجود ہے، اس سے قبل بھی عمران خان کو عدالتوں کی جانب سے خصوصی پروٹوکول اور ریلیف فراہم کیا جاتا رہا ہے، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت میں جب عمران خان پیش ہوئے تو عدالتِ عظمٰی کے منصفِ اعظم کی جانب سے ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر استقبال کیا گیا اور کمرہِ عدالت میں بولے گئے اس جملے نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔
نظامِ انصاف کے ایسے تضاد میں سازشی نظریات کے شعلے بھڑکتے دکھائی دیتے ہیں، عدلیہ کی ایسی جانبداری اور تضادات کی وجہ سے ہی عام آدمی کا عدالتی نظام پر اعتماد دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے۔
Shame on you judge athar minallah