لاہور (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیرِ اعلٰی مریم نواز شریف کے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے 100 دنوں میں متعدد اہم اور انقلابی اقدامات سامنے آئے ہیں۔ نواز شریف آئی ٹی سٹی کے آغاز سے لے کر جدید صحت کی سہولیات کے منصوبوں تک، مریم نواز شریف نے مختلف شعبوں میں جامع ترقی پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ یہ اقدامات معاشی ترقی، عوامی فلاح و بہبود اور صوبے کے انفراسٹرکچر کو جدید بنانے کیلئے اٹھائے گئے ہیں جو پنجاب کے عوام کی خوشحالی اور ترقی کیلئے ان کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔
پنجاب میں مریم نواز شریف کی وزارتِ اعلٰی کے پہلے 100 دنوں کے انقلابی اقدامات کی تفصیلات درج ذیل ہے۔
نواز شریف آئی ٹی سٹی
نواز شریف آئی ٹی سٹی ایک بلند پایہ منصوبہ ہے جس کیلئے ابتدائی طور پر 10 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ لاہور میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) اور ریسرچ سینٹر کے قریب 853 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس منصوبے کو پنجاب سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی سی بی ڈی ڈی اے) کے تحت منظم کیا جا رہا ہے اور اسے چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: آئی ٹی اور ٹیک ڈسٹرکٹ، ایجوکیشن سٹی، فلم سٹی، اور کمرشل/رہائشی علاقے۔ اس منصوبے سے ایک ملین ملازمتوں کی تخلیق متوقع ہے جو پنجاب کی معیشت میں براہِ راست اور بالواسطہ حصہ ڈالیں گی۔ اس میں ٹیکس مراعات اور خصوصی اقتصادی زونز کی تخلیق بھی شامل ہے تاکہ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔ حکومت نے آئی ٹی سٹی میں کام کرنے والے کاروباروں کیلئے 10 سال کے ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا ہے جو مختلف شعبوں سے شرکت کی مزید حوصلہ افزائی کرے گا۔ ایک نمایاں اقدام میں، پنجاب حکومت نے چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن (سی ایم ای سی) کے ساتھ آئی ٹی سٹی کی ترقی میں مدد کیلئے ایک معاہدہ کیا ہے۔ یہ تعاون بین الاقوامی دلچسپی اور حمایت کی نشاندہی کرتا ہے، جو پنجاب کے تکنیکی ترقی کے سفر میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔
منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں سیلسٹیا ٹوئن ٹاور آئی ٹی بلڈنگ کی تعمیر شامل ہے، جس کی تکمیل 12 مہینوں میں متوقع ہے۔ یہ مرحلہ ایک عالمی معیار کے منصوبے کو یقینی بنانے کیلئے نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) اور ایک بین الاقوامی کنسلٹنٹ کے ذریعے تیار کردہ جامع منصوبے کا حصہ ہے۔ اس منصوبے میں سی بی ڈی پنجاب کی طرف سے آگاہی بڑھانے اور مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے روڈ شوز بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 100 ارب روپے کی تخمینی لاگت کے ساتھ نواز شریف آئی ٹی سٹی لاہور کو عالمی آئی ٹی منظر نامے میں ایک اہم کردار بنانے کا ہدف رکھتا ہے۔ متنوع آمدنی کے ماڈلز کی شمولیت، جیسے کہ پیداوار، مشترکہ منصوبے، اور ریئل سٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹس (ریئٹ)، اس منصوبے کو مالی طور پر مستحکم اور سرمایہ کاروں کیلیے منافع بخش بنانے کی غرض سے تیار کیا گیا ہے۔
رمضان نگہبان پیکیج
مریم نواز شریف نے رمضان المبارک کے دوران لاکھوں مستحق خاندانوں کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ایک اہم فلاحی پروگرام رمضان نگہبان پیکیج کا آغاز کیا۔ 30 ارب روپے مالیت کا یہ رمضان نگہبان پیکیج پنجاب بھر کے 35 ملین سے زائد لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ڈیزائن کیا گیا؛ اس پیکیج میں 6.5 ملین ہیمپرز کی تقسیم شامل تھی جس میں آٹا، چاول، چینی، گھی، اور چنے جیسی ضروری اشیاء شامل تھے۔ ہر ہیمپر میں شفافیت کو یقینی بنانے اور نقل سے بچنے کیلئے کیو آر کوڈ شامل تھا۔ ان پیکجز کی تقسیم پنجاب سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی سی بی ڈی ڈی اے) اور دیگر صوبائی حکام کے ذریعہ منظم کی گئی تھی۔ یہ پیکجز مستحقین کے دروازے پر پہنچائے گئے جس سے لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کی ضرورت ختم ہو گئی تھی۔ مستحقین کے دروازے پر پہنچانے کا نظام اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ریلیف مستحقین تک موزوں اور مؤثر طریقے سے پہنچے۔
رمضان ہیمپرز کے علاوہ صوبے بھر میں خصوصی رمضان بازار بھی قائم کئے گئے تاکہ ضروری اشیاء کو سبسڈی ریٹس پر فراہم کیا جا سکے۔ حکومت نے مہنگائی کو روکنے اور عوام کی سہولت کو یقینی بنانے کیلئے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے سخت اقدامات بھی نافذ کیے۔ مریم نواز شریف نے رمضان نگہبان پیکیج کے نفاذ میں معیار اور شفافیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ضلعی حکام کو ہدایات دی تھیں کہ وہ تقسیم کی جانے والی اشیاء کے اعلٰی معیار کو یقینی بنانے کیلئے چیک اور بیلنس کا خیال کریں۔ مزید برآں، مستحق خاندانوں کی شناخت اور تصدیق میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) اور نادرا کی معاونت اہم تھی۔ رمضان نگہبان پیکیج کے ساتھ، مریم نواز شریف نے تمام سرکاری ہاسپٹلز کی ایمرجنسی میں مفت ادویات کی فراہمی اور عوامی شکایات کیلئے ایک مخصوص ہیلپ لائن کا آغاز بھی کیا تاکہ مسائل کو 72 گھنٹوں کے اندر حل کیا جا سکے۔ یہ اقدامات پنجاب میں صحت کی دیکھ بھال اور عوامی خدمات کو بہتر بنانے کیلئے ان کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں
نواز شریف کسان کارڈ
مریم نواز نے نواز شریف کسان کارڈ کے آغاز کی بھی منظوری دی جو پنجاب کے چھوٹے کسانوں کیلئے ایک اہم اقدام ہے۔ اس اقدام کے تحت 150 ارب روپے کے قرضے آسان شرائط پر 5 لاکھ چھوٹے کسانوں کو فراہم کیے جائیں گے۔ ہر کسان ایک ایکڑ کے لئے 30 ہزار روپے کا قرض حاصل کر سکتا ہے تاکہ وہ اعلیٰ معیار کے بیج، کھاد، اور کیڑے مار ادویات خرید سکے۔ اس اقدام کا مقصد کسانوں پر مالی بوجھ کم کرنا اور انہیں بہتر زرعی اشیاء میں سرمایہ کاری کرنے کے قابل بنانا ہے۔ کسان پیکیج میں مختلف سبسڈیز بھی شامل ہیں جو کسان کارڈ کے ذریعے تقسیم کی جائیں گی۔ یہ سبسڈیز اہم زرعی اشیاء کو کور کرتی ہیں جس سے کسان ضروری وسائل کو بہتر فصل کی پیداوار کیلئے حاصل کر سکیں گے۔ پیکیج میں جدید زرعی آلات کیلئے بھی بڑا حصہ مختص کیا گیا ہے جس کے تحت 7 ارب روپے سے 24 ہزار 8 سو جدید زرعی مشینری کے ٹکڑے دو سالوں میں کسانوں کو فراہم کئے جائیں گے۔
زرعی برادری کی مزید معاونت کیلئے مریم نواز شریف نے پنجاب بھر میں ماڈل ایگریکلچر سینٹرز (ایم اے سی) کے قیام کا اعلان کیا۔ یہ مراکز نجی شعبے کے ساتھ تعاون میں قائم کیے جائیں گے۔ جدید زرعی مشینری، تربیت اور پلاٹس فراہم کیے جائیں گے۔ ابتدائی مرحلے میں ہر ضلع میں ایک ایم اے سی قائم کیا جائے گا جس کا مقصد جعلی کھاد اور کیڑے مار ادویات کے مسائل سے نمٹنا اور زراعت میں بہترین طریقوں کو فروغ دینا ہے۔ پیکیج کا ایک بڑا حصہ تحقیق اور ترقی کیلئے وقف ہے۔ کپاس، گندم اور چاول کی فصلوں پر تحقیق کیلئے ایک جدید مرکز قائم کیا جائے گا جسے علاقائی یونیورسٹیز کے ساتھ منسلک کیا جائے گا تاکہ زرعی تحقیق کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ مزید برآں، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں چین کے تعاون سے 2 ارب روپے کا ایک تحقیقی و ترقیاتی مرکز قائم کیا جائے گا، یہ مرکز جینوم تحقیق، جراثیم وسائل، تیز افزائش اور زراعت کیلئے موسمی تبدیلیوں کے اثرات پر توجہ دے گا۔
مریم نواز شریف کی حکومت زرعی شعبے کی حمایت کیلئے قانونی اصلاحات پر بھی کام کر رہی ہیں۔ زرعی کیڑے مار ادویات کے ایکٹ اور کھادوں کے کنٹرول ایکٹ میں تجویز کردہ ترامیم کا مقصد جعلی زرعی مصنوعات کی فروخت کو روکنا ہے۔ مزید برآں، پنجاب سیڈ کارپوریشن اور پنجاب زرعی تحقیقاتی بورڈ کی تنظیمِ نو کے منصوبے بھی شامل ہیں تاکہ کارکردگی اور اس کے اثرات کو بہتر بنایا جا سکے۔ ان اقدامات کے کامیاب نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے زرعی توسیعی ونگ کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے گا اور 500 زرعی گریجویٹس کو بھرتی کیا جائے گا۔ اس اقدام سے کسانوں کیلئے تکنیکی معاونت میں اضافہ اور جدید زرعی طریقوں کے فروغ کی توقع ہے۔
سولر س سکیم
سولر سسٹم سکیم، جسے “روشن گھرانا پروگرام” بھی کہا جاتا ہے، کا بجٹ 12 اعشاریہ 6 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔ یہ اقدام حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کو فروغ دینے اور روایتی بجلی کے ذرائع پر انحصار کم کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ پروگرام کے پہلے مرحلے میں منتخب گھروں کو 50 ہزار سولر سسٹم تقسیم کیے جائیں گے۔ ابتدائی مرحلے کا ہدف “محفوظ صارفین” ہیں، خاص طور پر وہ جو ماہانہ 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں۔ ان مستحقین کے انتخاب میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانے کیلئے ایک بیلٹنگ سسٹم بنایا جائے گا۔ انتخابی عمل کا مقصد کم آمدنی والے خاندانوں کو ترجیح دینا ہے جو بجلی کے کم اخراجات اور قابلِ اعتماد بجلی کی فراہمی سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔
اس سکیم کے تحت فراہم کردہ ہر سولر سسٹم میں 1 کلو واٹ کے سولر پینلز، ایک انورٹر، ایک بیٹری – طویل مدت کیلئے لیتھیم آئن بیٹریز – اور اضافی لوازمات، جیسے وائرنگ، شامل ہیں۔ یہ اجزاء اس بات کو یقینی بنانے کیلئے منتخب کیے گئے ہیں کہ نظام گھریلو ضروری آلات، جیسے پنکھے، لائٹس اور چھوٹے موٹرز، چلا سکیں جو 16 گھنٹے تک کی بجلی کا بیک اپ فراہم کرتے ہیں۔ چیف منسٹر نے ان سولر سسٹمز کی کارکردگی اور قابلیت کا جائزہ لینے کیلئے فوری طور پر ایک پائلٹ فیز شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پائلٹ کے نتائج بڑے پیمانے پر نفاذ کیلئے معلومات فراہم کریں گے اور منصوبہ ہے کہ اس پروگرام کو بتدریج پنجاب بھر میں مزید گھروں تک پھیلایا جائے۔
پروگرام کی انتظامیہ میں کئی اہم شخصیات اور محکمے شامل ہیں جن میں صوبائی اطلاعات کے وزیر، چیف سیکرٹری اور توانائی اور مالیات کے سیکرٹریز شامل ہیں۔ ان کی مربوط کوششیں نفاذ کو آسان بنانے اور کسی بھی تکنیکی یا لاجسٹک چیلنجز کو حل کرنے کیلئے اہم ہیں۔ سولر سسٹمز کی درخواست دینے کیلئے اہل گھرانوں کو پاکستانی شہری ہونا چاہیے، ایک درست سی این آئی سی کا حامل ہونا چاہیے اور ان کی جائیداد پر سولر سسٹم کی تنصیب کی اجازت ہونی چاہیے یا ان کے مالک کی اجازت ہونی چاہیے۔ درخواست کا عمل ایک آن لائن پورٹل کے ذریعے آسان بنایا گیا ہے جہاں درخواست دہندگان ضروری فارم بھر سکتے ہیں اور مطلوبہ دستاویزات جمع کر سکتے ہیں۔ ان دستاویزات میں درخواست دہندہ کے سی این آئی سی کی سکین شدہ کاپی، جائیداد کی ملکیت یا اجازت نامہ اور حالیہ بجلی کے بلز شامل ہیں۔
درخواست جمع کروانے کے بعد متعلقہ حکام درخواستوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ کامیاب درخواست دہندگان کو مطلع کیا جاتا ہے اور سولر سسٹمز کی تنصیب فوری طور پر شروع ہو جاتی ہے۔ یہ منظم طریقہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ نظام کی تقسیم اور تنصیب مؤثر طریقے سے ہو، تاخیر کو کم سے کم کیا جائے اور اثر کو زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔
چیف منسٹر بائیک سکیم
چیف منسٹر بائیک سکیم، جو مارچ 2024 میں باضابطہ طور پر شروع کی گئی، چیف منسٹر کے وسیع یوتھ انیشی ایٹو کا حصہ ہے۔ اس سکیم کا مقصد طلباء کو 19 ہزار پیٹرول بائیکس اور ایک ہزار الیکٹرک بائیکس فراہم کرنا ہے۔ یہ اقدام بائیکس کو آسان ماہانہ اقساط پر بغیر کسی سود کے فراہم کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ طلباء کیلئے اپنی ذاتی نقل و حمل کو مالی طور پر ممکن بنایا جا سکے۔ اس کیلئے پنجاب حکومت نے بینک آف پنجاب کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ اس طرح کی سکیم کو سہولت فراہم کی جا سکے۔ معاہدے کے تحت پیٹرول بائیک کیلئے ماہانہ قسط 5 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جبکہ الیکٹرک بائیک کیلئے یہ تقریباً 10 ہزار روپے سے کم ہے۔ حکومت ان اقساط پر سود کا بوجھ اٹھائے گی تاکہ طلباء کو اضافی مالی بوجھ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بائیک سکیم کیلئے درخواست کا عمل بڑی تعداد میں شرکت کو یقینی بنانے کیلئے منصوبہ بندی کے تحت ترتیب دیا گیا۔ اہلیت کے معیار میں کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ شدہ طلباء شامل ہیں جن میں سے مالی ضرورت ثابت کرنے والوں کو ترجیح دی گئی۔ ایک کوٹا سسٹم قائم کیا گیا تاکہ برابری کی تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے: شہری علاقوں میں، مرد اور خواتین طلباء کے درمیان برابر کی تقسیم ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 70 فیصد بائیکس مرد طلباء کو اور 30 فیصد خواتین طلباء کو مختص کی گئی ہیں۔
اس سکیم کیلئے ردعمل بہت مثبت رہا ہے جس میں ایک لاکھ سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔ انتخاب کیلئے ایک کمپیوٹرائزڈ بیلٹنگ سسٹم استعمال کیا گیا تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ مئی 2024 میں بیلٹنگ کے عمل کی تکمیل کے بعد پہلے مرحلے کی تقسیم شروع ہو گئی۔ مریم نواز نے خود اس سکیم کے تبدیلی کے ممکنہ اثرات پر زور دیا ہے۔ طلباء کو ذاتی نقل و حمل کی فراہمی کے ذریعہ اس اقدام کا مقصد ان کے سفر کے وقت کو کم کرنا، ان کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانا، اور ان کی مجموعی زندگی کے معیار کو بڑھانا ہے۔ اس اقدام کو پائیدار نقل و حمل کے فروغ کی ایک قدم کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے جس میں ایک ہدف الیکٹرک بائیکس کی شمولیت سے ماحولیات پر اثرات کو کم کرنا بھی ہے۔
مفت دواؤں کی فراہمی کا منصوبہ
مفت دواؤں کی فراہمی کے منصوبے کا باضابطہ آغاز 4 مئی 2024 کو کیا گیا۔ یہ منصوبہ ٹی بی، ہیپاٹائٹس، اور قلبی امراض جیسے دائمی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو مفت ضروری ادویات کی فراہمی کیلئے بنایا گیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ابتدائی مرحلے میں 2 لاکھ مریضوں کو فائدہ پہنچانا ہے تاکہ وہ علاج گاہوں میں جائے بغیر اپنی ضروری ادویات حاصل کر سکیں۔ مریم نواز شریف نے مختلف مقامات پر خود دوائیں فراہم کیں۔ ان کے دوروں میں کچی آبادیوں کے رہائشی، رسولان بی بی اور منور ملک، شامل تھے جبکہ دونوں امراضِ قلب میں مبتلا ہیں۔ ان ذاتی ملاقاتوں نے نہ صرف حکومت کے عزم کو اجاگر کیا بلکہ مریضوں اور ان کے خاندانوں کو خوشی اور سکون بھی پہنچایا۔
اس منصوبے کے تحت پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ میں سہولت مرکز کا افتتاح بھی کیا گیا۔ یہ مرکز ٹی بی اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی دوبارہ رجسٹریشن کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے میں اہم ہے تاکہ انہیں فوری طور پر مفت دواؤں کی فراہمی کے پروگرام میں شامل کیا جا سکے۔ مزید برآں، مریم نواز شریف نے دواؤں کے معیار اور حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ایک جدید ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کا معائنہ بھی کیا۔ مریم نواز شریف نے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیویلپمنٹ ونگ کی بنیاد رکھی اور نئے سہولیات، جیسے ڈاکٹرز کیلئے وین، کا معائنہ کیا جس سے پنجاب میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں بہتری آئی۔
یہ منصوبہ پنجاب میں صحت کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے کی ایک وسیع حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ مریم نواز کی انتظامیہ 300 بنیادی صحت کے یونٹس (بی ایچ یوز) کی تزئین و آرائش پر بھی توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ مستقبل کے منصوبوں میں لاہور میں پہلے سرکاری جدید کینسر ہاسپٹل کا قیام اور “کلینک آن ویلز” منصوبے کا آغاز شامل ہے تاکہ دور دراز علاقوں میں صحت کی خدمات فراہم کی جا سکیں۔
مفت دواؤں کی فراہمی کا منصوبہ نواز شریف اور شہباز شریف کے پہلے سے جاری کردہ ان منصوبوں کا تسلسل اور توسیع ہے جو گزشتہ حکومت کی طرف سے بند کر دیئے گئے تھے۔ ان منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے اور انہیں مزید بہتر بنانے میں مریم نواز کا مقصد ہے کہ پنجاب میں کوئی مریض ضروری طبی علاج سے محروم نہ رہے چاہے وہ لاجسٹک چیلنجز یا صحت کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے ہو۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ وہ ایک ایسے مستقبل کا خواب دیکھتی ہیں جہاں پانچ سال کے اندر پنجاب کے ہر شہر میں جدید صحت کی سہولیات دستیاب ہوں جن میں قلبی امراض، بچوں کی صحت، اور آنکولوجی جیسے تخصص شامل ہوں۔ انتظامیہ ایئر ایمبولینس سروس کو بھی متعارف کرانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ ہنگامی حالات میں مریضوں کی نقل و حمل کو مزید سپورٹ کیا جا سکے۔
نئے فیلڈ ہسپتال
مریم نواز نے لوگوں کو جدید صحت کی سہولیات ان کے دروازے پر فراہم کرنے کے وژن کے تحت فیلڈ ہاسپٹلز کے منصوبے کا افتتاح بھی کیا۔ اس منصوبے میں موبائل ہیلتھ کیئر یونٹس اور کنٹینر ہسپتال شامل ہیں، جو جدید طبی ٹیکنالوجیز سے لیس ہیں۔ اب تک 32 فیلڈ ہسپتال قائم کئے گئے ہیں۔ منصوبہ تیزی سے نافذ کیا گیا، جس میں تمام 32 فیلڈ ہسپتال چھ ہفتوں کے اندر فعال ہو گئے۔ ہر فیلڈ ہسپتال کو ایک کنٹینر میں رکھا گیا ہے جسے مکمل طور پر فعال طبی یونٹ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ موبائل ہسپتال تشخیصی یونٹس، لیبز، الٹرا ساؤنڈ، ای سی جی، ایکسرے مشینیں اور فارمیسیز سے لیس ہیں۔
فیلڈ ہسپتال جامع طبی خدمات فراہم کرتے ہیں جو دیہی آبادی کی مختلف طبی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ ان خدمات میں آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ (او پی ڈی) شامل ہیں جہاں عام طبی مشاورت اور علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ تشخیصی خدمات بھی ایک اہم خصوصیت ہیں جن میں ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ، ای سی جی، اور لیب ٹیسٹ شامل ہیں تاکہ مکمل طبی جائزے کو یقینی بنایا جا سکے۔ فارمیسی خدمات مفت ادویات فراہم کرتی ہیں جس سے علاج کی سہولت سب کیلئے ممکن ہوتی ہے۔ مزید برآں، ہسپتال زچہ و بچہ کی دیکھ بھال پر بھی توجہ دی گئی ہے جس میں نوزائیدہ بچوں کیلئے حفاظتی ٹیکے اور زچگی کی صحت کی خدمات شامل ہیں۔ چھوٹے جراحی کے اقدامات موقع پر کئے جا سکتے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں خواتین کی صحت کے مسائل کے لئے لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی شامل ہیں جو خواتین کی صحت کے مسائل کا حل کرتی ہیں اور سکول نیوٹریشن پروگرام چلاتی ہیں تاکہ سکول جانے والے بچوں کی بہتر صحت اور غذائیت کو فروغ دیا جا سکے۔
فیلڈ ہسپتالوں کی تعیناتی ایک سٹریٹجک منصوبے کے تحت کی گئی ہے تاکہ سب سے زیادہ غیر محفوظ علاقوں کو پہلے کور کیا جا سکے۔ جب کوئی فیلڈ ہسپتال کسی گاؤں میں آتا ہے تو اعلانات کئے جاتے ہیں تاکہ رہائشی خدمات کے بارے میں آگاہ ہوں۔ یہ طریقہ اعلٰی رسائی اور سہولیات کے استعمال کو یقینی بناتا ہے۔ فیلڈ ہسپتالوں نے ان کمیونٹیز سے مثبت ردعمل حاصل کیا ہے جن کیلئے وہ خدمات فراہم کرتے ہیں۔ افتتاح کے دوران مریم نواز نے خود مختلف مقامات کا دورہ کیا، مقامی باشندوں سے ملاقات کی اور طبی علاج کی نگرانی کی۔ اس عملی نقطہ نظر نے اعتماد کو فروغ دیا اور منصوبے کے مؤثر ہونے کو یقینی بنایا۔
کلینکس آن ویلز
پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے پہلے 100 دنوں میں مریم نواز شریف نے “کلینکس آن ویلز” کے عنوان سے شعچہ صحت کیلئے ایک بلند پایہ منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کا مقصد صوبے بھر میں 200 موبائل کلینکس تعینات کرنا ہے تاکہ عوام کو بنیادی طبی خدمات فراہم کی جا سکیں، خاص طور پر غیر محفوظ اور زیادہ آبادی والے شہری علاقوں میں۔ کلینکس آن ویلز منصوبے کا افتتاح لاہور میں کیا گیا جہاں مریم نواز نے سب کے لئے صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کے حکومتی عزم پر زور دیا۔ یہ اقدام پنجاب بھر میں تقریباً چار ملین افراد کو فائدہ پہنچانے کا منصوبہ ہے جبکہ طبی سہولیات ان کے دروازے پر فراہم کی جائیں گی۔
یہ موبائل کلینکس ان علاقوں میں تعینات کئے گئے ہیں جہاں ہسپتالوں اور دیگر صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات تک رسائی محدود ہے۔ اس کا مقصد موجودہ صحت کی دیکھ بھال کے انفراسٹرکچر پر دباؤ کو کم کرنا اور ضرورت مند لوگوں کو بروقت طبی امداد فراہم کرنا ہے۔ فراہم کردہ خدمات میں عام صحت چیک اپ، زچگی اور بچوں کی صحت کی خدمات، حفاظتی ٹیکے اور چھوٹے ہنگامی علاج شامل ہیں۔ کلینکس آن ویلز منصوبے کے ساتھ ساتھ مریم نواز نے پنجاب کے آٹھ شہروں میں جدید قلبی سہولیات کے قیام کا اعلان کیا جن میں میانوالی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، جہلم، ساہیوال، مری اور لیہ شامل ہیں۔ کلینکس ہفتے میں چھ دن صبح 9 بجے سے دوپہر 3 بجے تک کام کریں گے جو باقاعدہ اور جامع صحت کی دیکھ بھال کی کوریج کو یقینی بناتے ہیں۔
پچیس سو بنیادی مراکز صحت
مریم نواز کا ایک اور اہم منصوبہ پنجاب بھر میں 2 ہزار 5 سو بنیادی صحت کی بحالی کے مراکز کا قیام ہے۔ اس اقدام کا مقصد دیہی اور غیر محفوظ کمیونٹیز کو قابلِ رسائی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنا ہے تاکہ دور دراز علاقوں میں بھی طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ مراکز بنیادی طبی خدمات فراہم کرنے کیلئے ضروری طبی سامان سے لیس اور تربیت یافتہ صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد سے عملے کے ساتھ ہیں۔ اس طرح بڑے ہسپتالوں پر بوجھ کو کم کیا گیا ہے۔
اس اقدام کا بنیادی مقصد پنجاب میں صحت کی دیکھ بھال کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہے جس میں بنیادی صحت کی خدمات فراہم کرنا شامل ہیں جیسے کہ زچگی اور بچوں کی صحت، حفاظتی ٹیکے، ابتدائی طبی امداد اور عام بیماریوں کا علاج۔ اس کا مقصد بڑے ہسپتالوں پر بوجھ کو کم کرنا ہے تاکہ لوگوں کے قریب انہیں پرائمری کیئر فراہم کی جا سکے۔ ہر بنیادی صحت یونٹ (بی ایچ یو) کو جدید طبی سامان کے ساتھ اپ گریڈ کیا جا رہا ہے اور تربیت یافتہ صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد کے ساتھ عملہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ سہولیات میں تشخیصی یونٹس، لیبز، الٹرا ساؤنڈ مشینیں، ای سی جی، ایکسرے سہولیات، اور فارمیسی شامل ہوں گی تاکہ جامع صحت کی دیکھ بھال کی خدمات دستیاب ہیں۔ مزید برآں، مریم نواز نے ان مراکز میں مفت دوائیوں کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیا ہے جو کم آمدنی والے طبقے کیلئے بہت فائدہ مند ہو گی۔
صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد کی کمی کو حل کرنے کے لئے، حکومت مزید ڈاکٹروں اور نرسوں کی بھرتی پر کام کر رہی ہے تاکہ ہر بی ایچ یو کے پاس کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مناسب عملہ موجود ہو۔ زچگی اور بچوں کی صحت کی خدمات پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے تاکہ شرح اموات کو کم کیا جا سکے اور مجموعی صحت کے نتائج کو بہتر بنایا جا سکے۔
ڈی ایچ کیوز اور ٹی ایچ کیوز کی اپ گریڈیشن
پہلے 100 دنوں میں مریم نواز نے صوبے بھر میں ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتالوں (ڈی ایچ کیوز) اور تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں (ٹی ایچ کیوز) کی اپگریڈیشن پر نمایاں توجہ دی۔ اس اپ گریڈیشن کے بنیادی مقاصد متعدد ہیں۔ ایک اہم مقصد تمام ڈی ایچ کیوز اور ٹی ایچ کیوز میں جدید طبی سامان کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے۔ اس میں موجودہ انفراسٹرکچر کو جدید صحت کی دیکھ بھال کے معیارات کے مطابق اپ گریڈ کرنا اور مریضوں کی دیکھ بھال کے مجموعی معیار کو بہتر بنانا شامل ہے۔ مزید برآں، تربیت یافتہ طبی پیشہ ور افراد کی بھرتی اور تربیت پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ ہسپتالوں کے پاس اہل عملہ موجود ہو جو اعلیٰ معیار کی دیکھ بھال فراہم کر سکے۔ موجودہ عملے کیلئے مسلسل تعلیم اور تربیتی پروگرام بھی نافذ کیے جا رہے ہیں تاکہ انہیں جدید طبی طریقوں اور ٹیکنالوجیز سے آگاہ رکھا جا سکے۔
اپ گریڈیشن کا ایک اہم پہلو ضروری دوائیوں کی دستیابی ہے۔ اس اقدام کا مقصد تمام ڈی ایچ کیوز اور ٹی ایچ کیوز میں ضروری اور جان بچانے والی دوائیوں کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے ایک نظام نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ دوائیوں کی فراہمی کی نگرانی اور انتظام کیا جا سکے اور اس سے ممکنہ قلت کو روکا جا سکے۔ توقع ہے کہ مریضوں کو ہمیشہ ضروری دوائیوں تک رسائی حاصل ہو گی جس سے صحت کے نتائج بہتر ہوں گے۔
ایمرجنسی خدمات کو بھی اس اپ گریڈیشن کے تحت بہتر بنایا جا رہا ہے۔ جدید ایمرجنسی خدمات، جن میں ایک موٹرائزڈ ایمبولینس سروس شامل ہے، متعارف کرائی جا رہی ہیں تاکہ بروقت طبی مدد فراہم کی جا سکے۔ مزید برآں، منصوبے میں دور دراز اور مشکل سے پہنچنے والے علاقوں کیلئے ائیر ایمبولینس بھی شامل ہے۔ یہ اضافہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال کی رسائی کو بہتر بنانے کیلئے اہم ہے جہاں طبی سہولیات اکثر محدود ہوتی ہیں۔
اس اپ گریڈیشن منصوبے کے نفاذ کی حکمتِ عملی مرحلوں میں تیار کی جا رہی ہےجس سے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں نظامی طور پر بہتریاں آئیں گی۔ ابتدائی طور پر، ڈی ایچ کیوز اور ٹی ایچ کیوز کی موجودہ حالت کا مکمل جائزہ لیا گیا تاکہ فوری توجہ کے حامل علاقوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ ان جائزوں کی بنیاد پر، ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا تاکہ انفراسٹرکچر، عملے اور سامان کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ مناسب فنڈنگ صوبائی بجٹ کے ذریعے حاصل کی گئی ہے، اور اس بلند پایہ منصوبے کی حمایت کیلئے وفاقی مدد کا امکان بھی ہے۔
مریم نواز کی قیادت میں ڈی ایچ کیوز اور ٹی ایچ کیوز کی اپ گریڈیشن کے متوقع نتائج نمایاں ہیں۔ دیہی اور شہری علاقوں میں صحت کی خدمات کے معیار کو بہتر بنا کر اس اقدام کا مقصد تریثری کیئر ہسپتالوں پر مریضوں کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔ اس سے جدید طبی علاج کی دستیابی اور بروقت دیکھ بھال کے سبب مریضوں کی تسلی اور صحت کے نتائج میں بہتری متوقع ہے۔ مزید برآں، ایمرجنسی خدمات اور ائیر ایمبولینس کی فراہمی کے ذریعے دور دراز آبادیوں تک صحت کی خدمات کی رسائی میں اضافہ متوقع ہے۔
ائیر ایمبولینسز
ہنگامی طبی خدمات کو بہتر بنانے کے لئے مریم نواز شریف نے پنجاب کی پہلی ائیر ایمبولینس سروس متعارف کرائی ہے۔ اس اقدام کا مقصد تیز طبی ردعمل اور نقل و حمل فراہم کرنا ہے۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کیلئے فائدہ مند ہے جو دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں صحت کی سہولیات تک رسائی مشکل ہو سکتی ہے۔ ائیر ایمبولینس سروس صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو بہتر بنانے اور صوبے بھر میں بروقت طبی مدد کو یقینی بنانے کیلئے ایک اہم قدم ہے۔
یہ بلند پایہ منصوبہ پنجاب کے صحت کی دیکھ بھال کے منظر نامے کو تبدیل کرنے کیلئے مریم نواز کے وسیع وژن کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ ائیر ایمبولینسز ایمرجنسی ردعمل کی صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرنے کے ایک جامع منصوبے کا حصہ ہیں۔ یہ سروس پنجاب ایمرجنسی سروس (ریسکیو 1122) کے ذریعے منظم کی جا رہی ہے جس کو موٹروے اور دیگر اہم علاقوں کیلئے ایک منظم نظام کے قیام کا کام سونپا گیا ہے۔
نیور اگین پروجیکٹ
نیور اگین پروجیکٹ کا سنگِ بنیاد خواتین کی حفاظت کیلئے وقف ایک مخصوص ایپلیکیشن کا آغاز ہے۔ بین الاقوامی یومِ خواتین پر 8 مارچ 2024 کو پیش کی گئی ایپ خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ایک اہم ٹول کے طور پر کام کرتی ہے۔ ایپ میں ایمرجنسی کانٹیکٹس، ریئل ٹائم لوکیشن ٹریکنگ اور ایک الرٹ سسٹم شامل ہیں جو ہنگامی صورت حال میں فوری طور پر حکام کو مطلع کر سکتا ہے۔ یہ انوویٹو حل خواتین کو دھمکیوں یا ہراسانی کی صورت میں مدد طلب کرنے کیلئے ایک قابلِ اعتماد اور مؤثر ذریعہ فراہم کرنے کی غرض سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
کام کرنے والی ماؤں کو درپیش چیلنجز کو تسلیم کرتے ہوئے، مخصوص جگہوں پر ڈے کیئر سنٹرز کے قیام کیلئے بھی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کے ساتھ یہ سینٹرز کام کرنے والی خواتین اور بچوں کیلئے محفوظ اور آسان دیکھ بھال کے اختیارات فراہم کرنے کا مقصد رکھتے ہیں۔ مزید برآں، مریم نواز نے کام کرنے والی خواتین کیلئے ہاسٹلز کی تعمیر کا اعلان کیا جو برسرِ روزگار خواتین کیلئے محفوظ اور سستی رہائش فراہم کرتے ہیں۔
نیور اگین پروجیکٹ کا ایک اور اہم مقصد خواتین کی معاشی خود مختاری کو فروغ دینا ہے۔ اس میں آن لائن کاروبار شروع کرنے والی خواتین کو 50 فیصد قرضے فراہم کرنے کی پالیسی شامل ہے۔ اس اقدام کا مقصد خواتین کی کاروباری صلاحیتوں کی حمایت کرنا اور معاشی مواقع میں صنفی فرق کو کم کرنا ہے۔ مزید برآں، پروجیکٹ میں بہنوں اور بیٹیوں کو دی گئی جائیدادوں پر منتقلی کی فیس کو ختم کرنے کے اقدامات شامل ہیں تاکہ خواتین کو مالی اثاثوں اور وراثت کے حقوق تک زیادہ رسائی حاصل ہو سکے۔
پنجاب پبلک سروس کمیشن میں خواتین کے لئے ملازمت کا کوٹا 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کا اعلان کرکے مریم نواز نے سرکاری خدمات میں خواتین کیلئے مزید مواقع پیدا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے جبکہ اس پالیسی کا مقصد سرکاری اداروں میں زیادہ شمولیت اور تنوع کو فروغ دینا ہے۔
پتنگوں پر کریک ڈاؤن
پتنگ بازی اگرچہ ایک ثقافتی تفریح ہے لیکن دھاتی تاروں کے استعمال کی وجہ سے متعدد حادثات اور اموات کا سبب بنی ہے اور مزید نقصانات کا باعث بن سکتی ہے۔ فیصل آباد میں ایک نوجوان کی پتنگ کی تار کی وجہ سے المناک موت کے بعد کریک ڈاؤن کی ضرورت مزید واضح ہوئی۔ اس واقعہ نے مریم نواز کو فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرنے پر مجبور کیا تاکہ مزید جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔ پنجاب پولیس کو موجودہ پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اس کے نتیجے میں پتنگ بازی میں ملوث ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ پتنگیں اور دھاتی تاریں ضبط کی گئیں۔ مخصوص طور پر، ایک ماہ کے دوران 3 ہزار 233 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور 31 سو سے زائد مقدمات درج کیے گئے۔
کریک ڈاؤن دھاتی پتنگ کی تاروں کی تیاری اور فروخت تک بھی پھیل گیا۔ حکام کو ان خطرناک مواد کی پیداوار کرنے والی فیکٹریز کو بند کرنے اور ان کی تقسیم کی نگرانی اور کنٹرول کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اس میں دھاتی تاروں کی تیاری اور فروخت میں ملوث افراد کی گرفتاری بھی شامل ہے۔ ان نفاذی کارروائیوں کی حمایت کیلئے ایک عوامی آگاہی مہم بھی شروع کی گئی۔ اس مہم کا مقصد دھاتی تاروں کے ساتھ پتنگ بازی کے خطرات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا اور محفوظ متبادل کو فروغ دینا ہے۔ عوامی خدمت کے پیغامات مختلف پلیٹ فارمز پر پھیلائے گئے تاکہ پابندی کی اہمیت کو تقویت ملے۔
مریم نواز شریف نے سخت قانونی نفاذ کی ضرورت پر زور دیا اور ان اقدامات کی پیش رفت پر روزانہ کی رپورٹس کا مطالبہ کیا۔ اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مسلسل نگرانی اور جوابدہی یقینی ہوئی۔
چیف منسٹر لیپ ٹاپ سکیم
اپنے چچا اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لیپ ٹاپ پروگرام کا بنیادی مقصد طلباء میں ڈیجیٹل خواندگی کو بڑھانا اور تعلیمی نظام کو جدید بنانا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کو ان کی تعلیم کی حمایت کیلئے ضروری ٹیکنالوجیکل ٹولز فراہم کرنا اور آن لائن سیکھنے کو فروغ دینا ہے۔ مزید برآں، اس کا مقصد طلباء کو آن لائن ملازمتوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ اس طرح غربت کو کم کرنے اور پنجاب میں ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینا ہے۔ لیپ ٹاپ پروگرام کیلئے اہلیت کا معیار میرٹ پر مبنی انتخاب کے عمل پر قائم ہے تاکہ انصاف اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ پنجاب بھر کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء کو پروگرام کے لئے شامل کیا جائے گا۔ انتخاب کے معیار میں تعلیمی کارکردگی پر توجہ دی جاتی ہے تاکہ محنت اور لگن سے پڑھائی کرنے والے طلباء کو انعام دیا جا سکے۔
مریم نواز نے پروگرام کی منظوری باضابطہ طور پر دی جس کے لئے 150 ارب پاکستانی روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ بجٹ لیپ ٹاپس کی خریداری، لاجسٹکس اور تقسیم سے متعلق انتظامی اخراجات کو کور کرتا ہے۔ درخواست کے عمل کو آسان بنانے کے لئے حکومت ایک آن لائن پورٹل شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جہاں طلباء پروگرام کے لئے رجسٹر ہو سکیں گے۔ یہ پورٹل درخواستوں کا مؤثر انتظام کرنے اور لیپ ٹاپس کی تقسیم کی شفاف میکانزم فراہم کرنے میں مدد کرے گا۔ پروگرام میں طلباء کے درمیان فیڈ بیک اور آراء اکٹھا کرنے کیلئے سروے بھی شامل ہیں۔ اس فیڈ بیک کو پروگرام کی بہتری اور متوقع چیلنجز سے نمٹنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ مقصد ہے کہ پروگرام کو طلباء کی ضروریات اور تجربات کی بنیاد پر مسلسل بہتر بنایا جائے۔
سستی روٹی اور آٹا
مریم نواز کے دورِ حکومت کی ایک اہم ترین خصوصیت روٹی کی قیمتوں میں کمی ہے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے روٹی کی قیمت کو 20 روپے سے کم کر کے 16 روپے کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کا مقصد پنجاب کے شہریوں، خاص طور پر کم آمدنی والے گروہوں، پر مالی بوجھ کو کم کرنا تھا تاہم کچھ علاقوں میں قیمت کو مزید کم کر کے 12 روپے کر دیا گیا۔ اس سخت کمی کا مقصد اس اہم غذائی اشیاء کو مختلف شہروں میں مزید سستا اور قابلِ رسائی بنانا تھا۔ قیمت مختلف شہروں میں قدرے مختلف تھی جیسے بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یار خان میں روٹی کی قیمت 12 روپے مقرر کی گئی جبکہ لاہور جیسے شہروں میں اسے 14 روپے مقرر کیا گیا۔
روٹی کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت نے آٹے کی قیمت کو کم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی۔ سال 2023 تا 2024 کیلئے گندم کی کم از کم سپورٹ قیمت 3 ہزار 9 سو روپے فی 40 کلوگرام مقرر کی گئی جو مارکیٹ کو مستحکم کرنے اور گندم کے آٹے کی قیمت کو کم کرنے کے لئے ایک اقدام تھا۔ اس قیمت کی ایڈجسٹمنٹ سے آٹے کی مارکیٹ قیمت کو کم کرنے کی توقع کی گئی تاکہ عام عوام کے لئے اسے زیادہ سستا بنایا جا سکے۔ نئی قیمتوں کی تعمیل کو یقینی بنانے کیلئے مریم نواز اور ان کی ٹیم نے مختلف نان شاپس کا دورہ کیا تاکہ فروخت کی قیمتوں کا معائنہ کریں اور عوام سے بات چیت کریں۔ اس براہِ راست شمولیت نے حکومت کے ان قیمتوں کے کنٹرول کو نافذ کرنے اور زیادہ قیمتوں سے متعلق شکایات کا ازالہ کرنے کے عزم کو اجاگر کیا۔
سمارٹ سیف سٹی پروجیکٹ
مریم نواز کے اہم اقدامات میں سے ایک السمارٹ سیف سٹی پروجیکٹ کا آغاز ہے۔ پی ایس سی اے ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران، انہوں نے 31 دسمبر 2024 تک پنجاب کے ہر ضلع میں اس منصوبے کے نفاذ کی ہدایت کی۔ اس منصوبے کا مقصد جدید نگرانی کی ٹیکنالوجیز اور جامع مانیٹرنگ سسٹمز کے ذریعے صوبے بھر میں سیکیورٹی کے اقدامات کو بڑھانا ہے۔ سمارٹ سیف سٹی پروجیکٹ میں اسپتالوں، بس اسٹینڈز، ہوائی اڈوں، اور ریلوے اسٹیشنز جیسے اہم مقامات پر کیمروں اور مانیٹرنگ سسٹمز کی تنصیب شامل ہے۔ یہ سسٹمز دہشت گردی، چوری اور دیگر جرائم کے مختلف خطرات کا پتہ لگانے اور ان کے ردعمل کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
مریم نواز نے خواتین کی حفاظت پر خاص زور دیا ہے۔ انہوں نے اپ گریڈ شدہ ویمن سیفٹی ایپ کی فوری تعیناتی کی ہدایت کی، جو ایک کلک کے ساتھ 43 خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہ ایپ خواتین کے لئے ایک اہم ٹول ہے تاکہ وہ واقعات کی اطلاع دے سکیں اور ہنگامی صورت حال میں مدد حاصل کر سکیں۔ مزید برآں، انہوں نے خواتین پولیس کمیونیکیشن آفیسرز کے لئے ہاسٹل کی تعمیر کا اعلان کیا جو عوامی حفاظت کی دیکھ بھال میں ان کے کردار کی مزید اہم بناتی ہے۔ پاکستان کے پہلے ورچوئل خواتین پولیس سٹیشن “میری آواز، مریم نواز” کا افتتاح بھی ایک قابلِ ذکر کامیابی ہے۔ یہ سٹیشن خواتین کو لائیو چیٹ، ویڈیو کالز اور مخصوص ایپ کے ذریعے پولیس خدمات سے منسلک ہونے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کے لئے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے اور تفتیش اور مقدمے کے مراحل میں مدد فراہم کرنا ہے۔
کرائم سٹاپر ایپ کی تعارف بھی ایک اہم قدم ہے۔ یہ ایپ شہریوں کو مختلف جرائم جیسے کہ دہشت گردی، عصمت دری، اور منشیات کی سمگلنگ کی اطلاع دینے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس ایپ کے ٹرائل رن نے جرائم کا بروقت پتہ لگانے اور رپورٹنگ میں امید افزا نتائج دکھائے ہیں۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال ایپ میں اس کی قابلیتوں کو بڑھاتا ہے تاکہ ٹریفک کی خلاف ورزیوں اور دیگر عوامی تحفظ کے خدشات کی نگرانی اور روک تھام کی جا سکے۔ مریم نواز کی انتظامیہ نے پنجاب کے 18 شہروں میں سیف سٹی پروجیکٹس کے نفاذ کے لئے معاہدے بھی کئے ہیں۔ اس میں ایئر کوالٹی انڈیکس مانیٹرنگ ماحول کے سینسرز کی تنصیب اور گجرات، جہلم، شیخوپورہ اور ملتان جیسے شہروں میں نگرانی کے نظام کی تعیناتی شامل ہے۔ اس اقدام کا مقصد پنجاب کے تمام رہائشیوں کے لئے ایک محفوظ ماحول بنانا ہے۔
ان خصوصیات کے علاوہ، منصوبے میں لاہور میں 100 جدید ایمرجنسی پینک بٹنز کی تنصیب شامل ہے۔ ان پینک بٹنز کو، جنہیں یونیورسٹیوں، کالجز، بازاروں، اور چوراہوں جیسے مقامات پر اسٹریٹجک طور پر رکھا گیا ہے، فوری طور پر سیف سٹی حکام کو مطلع کرنے کے لئے دبایا جا سکتا ہے۔ یہ تیز ردعمل کا نظام عوامی مقامات پر خواتین کی حفاظت کو مزید بہتر بنانے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
خصوصی بچوں کے لئے تعلیم
مریم نواز نے پنجاب کے ہر ضلع میں خصوصی ضروریات کے بچوں کے لئے جدید تعلیمی مراکز کے قیام کا اعلان کیا۔ ان مراکز کا مقصد خصوصی ضروریات کے بچوں کے لئے اعلی معیار کی تعلیم فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ دوسرے بچوں کی طرح تعلیمی مواقع حاصل کر سکیں۔ مراکز کو خصوصی تدریسی عملے، موافقت پذیر تعلیمی اوزار، اور مختلف قسم کی معذوریوں کی حمایت کے لئے وسائل سے لیس کیا گیا ہے، جن میں جسمانی معذوری سے لے کر تعلیمی معذوری تک شامل ہیں۔
خصوصی بچوں کی منفرد ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے، ان کے سیکھنے کی ضروریات کے مطابق مخصوص نصاب تیار کرنے کے لئے کوشش کی گئی ہے۔ اس میں اساتذہ کی تربیت شامل ہے تاکہ وہ خصوصی بچوں کے تعلیمی چیلنجوں کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان کا مقابلہ کر سکیں۔ نصاب کو شامل کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے، جس میں عملی مہارتوں، تھراپیٹی سرگرمیوں، اور پیشہ ورانہ تربیت پر زور دیا گیا ہے تاکہ بچے معاشرے میں ضم ہو سکیں اور خود مختاری حاصل کر سکیں۔
مریم نواز کی انتظامیہ نے خصوصی بچوں کے لئے تعلیم کے معیار کو بڑھانے کے لئے عوامی نجی شراکت داری پر بھی توجہ دی ہے۔ این جی اوز اور نجی شعبے کے ساتھ تعاون کرکے، حکومت اضافی وسائل، مہارت، اور جدید طریقوں کا فائدہ اٹھانے کا مقصد رکھتی ہے۔ یہ مشترکہ نقطہ نظر خصوصی بچوں کے لئے زیادہ جامع معاون نظام بنانے میں مدد کرتا ہے، جس میں اضافی سرگرمیاں، نفسیاتی مدد، اور کیریئر مشاورت شامل ہیں۔
رسائی کو یقینی بنانے کے لئے، نئے تعلیمی مراکز کو خصوصی بچوں کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کی سہولیات کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں ریمپس
، لفٹیں، اور خصوصی ٹرانسپورٹیشن خدمات شامل ہیں۔ مزید برآں، جہاں ممکن ہو، عام اسکولوں میں شمولیتی تعلیم کے طریقوں کے نفاذ کے ذریعے خصوصی بچوں کو شامل کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
اس اقدام کا ایک اہم حصہ والدین اور کمیونٹی کو تعلیمی عمل میں شامل کرنا ہے۔ والدین کے لئے باقاعدہ ورکشاپس اور تربیتی سیشنز کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی تعلیمی سفر میں گھر پر مدد کر سکیں۔ کمیونٹی آگاہی پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں تاکہ بدنامی کو کم کیا جا سکے اور خصوصی بچوں کے لئے زیادہ قبول کرنے والا رویہ فروغ دیا جا سکے۔
خواتین پولیس کے لئے ہاسٹل
وزیر اعلیٰ نے خواتین پولیس اہلکاروں کے لئے ہاسٹل کی تعمیر کے منصوبے کے آغاز کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کے لئے کام کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے بھی اہم اقدامات کئے ہیں۔ یہ اقدام خواتین پولیس فورس کے لئے فلاح و بہبود اور پیشہ ورانہ ماحول کو بہتر بنانے کے ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
یہ ہاسٹلز خواتین پولیس اہلکاروں کے لئے محفوظ، معاون، اور آسان رہائش فراہم کرنے کے لئے ڈیزائن کئے گئے ہیں۔ ان رہائش گاہوں کی اہمیت پولیس کے کام کی مطالباتی اور اکثر چیلنجنگ نوعیت کے پیش نظر اہم ہے، جس کے لئے افسران کو اپنے کام کی جگہوں کے قریب قابل اعتماد اور محفوظ رہائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اقدام کا مقصد خواتین پولیس اہلکاروں کو درپیش منفرد چیلنجوں کا ازالہ کرنا ہے، جیسے کہ ان کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانا، تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں زیادہ موثر طریقے سے انجام دے سکیں۔
وائلڈ لائف سروے
مریم نواز نے 530 ملین پاکستانی روپے کی مالیت کے جامع سروے کے ذریعے جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے بھی ایک قابل ذکر اقدام شروع کیا ہے۔ اس سروے کا مقصد صوبے میں متنوع جنگلی حیات کا جائزہ لینا اور ان کی حفاظت کرنا ہے، جو نایاب انواع اور ان کے مسکن پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد تحقیق، نگرانی، اور تحفظ کے اقدامات کو بہتر بنانا ہے تاکہ پائیدار تحفظ کی کوششوں کو یقینی بنایا جا سکے۔
مریم نواز کا جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے عزم پائیدار ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے ان کے وسیع وژن کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اس اقدام سے جنگلی حیات کی آبادیوں اور ماحولیاتی نظاموں پر قیمتی ڈیٹا فراہم ہونے کی توقع ہے، جو مستقبل کی تحفظ کی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کو مطلع کرے گا۔ اس سروے کے لئے بڑے پیمانے پر فنڈز مختص کرکے، ان کی قیادت میں پنجاب حکومت ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے اور حیاتیاتی تنوع کو فروغ دینے کے لئے ایک فعال نقطہ نظر ظاہر کرتی ہے۔
ورچوئل خواتین پولیس اسٹیشنز
میری آواز…مریم نواز کے نام سے جانا جانے والا ورچوئل خواتین پولیس اسٹیشن خواتین کو خود پولیس اسٹیشن جانے کی ضرورت کے بغیر سہولت فراہم کرنے کے لئے مختلف خصوصیات پیش کرتا ہے۔ ایک اہم خصوصیت لائیو ویڈیو کال کی فعالیت ہے، جو خواتین کو حقیقی وقت میں اور محفوظ مقام سے واقعات کی اطلاع دینے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ خصوصیت خاص طور پر ان خواتین کے لئے اہم ہے جو فوری خطرات کا سامنا کر رہی ہیں یا فوری مدد کی ضرورت ہے۔ حکام کے ساتھ براہ راست بصری مواصلات کو فعال کرکے، یہ خواتین کی ضروریات کو پورا کرنے میں اعتماد اور عجلت کا احساس پیدا کرتا ہے۔
پرائیویسی اور گمنامی اس ورچوئل پولیس اسٹیشن کی کارروائی کے مرکز میں ہیں۔ خواتین اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر شکایات درج کر سکتی ہیں، جس سے ان کی حفاظت یقینی بنتی ہے اور زیادہ خواتین کو اپنے مسائل کے ساتھ سامنے آنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ طریقہ خاص طور پر حساس معاملات جیسے ہراسانی اور گھریلو تشدد کے لئے فائدہ مند ہے، جہاں پرائیویسی کے خدشات اکثر متاثرین کو مدد طلب کرنے سے روکتے ہیں۔
ورچوئل اسٹیشن خواتین کو جامع مدد فراہم کرتا ہے، جس سے وہ جرم رپورٹنگ کے عمل کے تمام مراحل میں رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج سے لے کر تفتیش اور مقدمے کے مراحل تک، خواتین کو ہر قدم پر مدد ملتی ہے۔ یہ جامع نقطہ نظر یقینی بناتا ہے کہ خواتین کو پیچیدہ قانونی اور طریقہ کار کی دنیا میں تنہا نہیں چھوڑا جاتا۔
اپنے ورچوئل خواتین پولیس اسٹیشن کے دورے کے دوران، مریم نواز نے خواتین کمیونیکیشن پولیس افسران کے ساتھ بات چیت بھی کی، جو خاص طور پر تربیت یافتہ آئی ٹی گریجویٹس ہیں۔ یہ افسران پیشہ ورانہ اور ہمدردی کے ساتھ شکایات کو سنبھالنے کے ذمہ دار ہیں، جس سے خواتین کی شکایات کو فوری اور مؤثر طریقے سے پورا کیا جا سکے۔
پتنگ بازی اگرچہ ایک ثقافتی تفریح ہے لیکن دھاتی تاروں کے استعمال کی وجہ سے متعدد حادثات اور اموات کا سبب بنی ہے اور مزید نقصانات کا باعث بن سکتی ہے۔ فیصل آباد میں ایک نوجوان کی پتنگ کی تار کی وجہ سے المناک موت کے بعد کریک ڈاؤن کی ضرورت مزید واضح ہوئی۔ اس واقعہ نے مریم نواز کو فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرنے پر مجبور کیا تاکہ مزید جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔ پنجاب پولیس کو موجودہ پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اس کے نتیجے میں پتنگ بازی میں ملوث ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ پتنگیں اور دھاتی تاریں ضبط کی گئیں۔ مخصوص طور پر، ایک ماہ کے دوران 3 ہزار 233 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور 31 سو سے زائد مقدمات درج کیے گئے۔
کریک ڈاؤن دھاتی پتنگ کی تاروں کی تیاری اور فروخت تک بھی پھیل گیا۔ حکام کو ان خطرناک مواد کی پیداوار کرنے والی فیکٹریز کو بند کرنے اور ان کی تقسیم کی نگرانی اور کنٹرول کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اس میں دھاتی تاروں کی تیاری اور فروخت میں ملوث افراد کی گرفتاری بھی شامل ہے۔ ان نفاذی کارروائیوں کی حمایت کیلئے ایک عوامی آگاہی مہم بھی شروع کی گئی۔ اس مہم کا مقصد دھاتی تاروں کے ساتھ پتنگ بازی کے خطرات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا اور محفوظ متبادل کو فروغ دینا ہے۔ عوامی خدمت کے پیغامات مختلف پلیٹ فارمز پر پھیلائے گئے تاکہ پابندی کی اہمیت کو تقویت ملے۔
مریم نواز شریف نے سخت قانونی نفاذ کی ضرورت پر زور دیا اور ان اقدامات کی پیش رفت پر روزانہ کی رپورٹس کا مطالبہ کیا۔ اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مسلسل نگرانی اور جوابدہی یقینی ہوئی۔
چیف منسٹر لیپ ٹاپ سکیم
اپنے چچا اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لیپ ٹاپ پروگرام کا بنیادی مقصد طلباء میں ڈیجیٹل خواندگی کو بڑھانا اور تعلیمی نظام کو جدید بنانا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کو ان کی تعلیم کی حمایت کیلئے ضروری ٹیکنالوجیکل ٹولز فراہم کرنا اور آن لائن سیکھنے کو فروغ دینا ہے۔ مزید برآں، اس کا مقصد طلباء کو آن لائن ملازمتوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ اس طرح غربت کو کم کرنے اور پنجاب میں ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینا ہے۔ لیپ ٹاپ پروگرام کیلئے اہلیت کا معیار میرٹ پر مبنی انتخاب کے عمل پر قائم ہے تاکہ انصاف اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ پنجاب بھر کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء کو پروگرام کے لئے شامل کیا جائے گا۔ انتخاب کے معیار میں تعلیمی کارکردگی پر توجہ دی جاتی ہے تاکہ محنت اور لگن سے پڑھائی کرنے والے طلباء کو انعام دیا جا سکے۔
مریم نواز نے پروگرام کی منظوری باضابطہ طور پر دی جس کے لئے 150 ارب پاکستانی روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ بجٹ لیپ ٹاپس کی خریداری، لاجسٹکس اور تقسیم سے متعلق انتظامی اخراجات کو کور کرتا ہے۔ درخواست کے عمل کو آسان بنانے کے لئے حکومت ایک آن لائن پورٹل شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جہاں طلباء پروگرام کے لئے رجسٹر ہو سکیں گے۔ یہ پورٹل درخواستوں کا مؤثر انتظام کرنے اور لیپ ٹاپس کی تقسیم کی شفاف میکانزم فراہم کرنے میں مدد کرے گا۔ پروگرام میں طلباء کے درمیان فیڈ بیک اور آراء اکٹھا کرنے کیلئے سروے بھی شامل ہیں۔ اس فیڈ بیک کو پروگرام کی بہتری اور متوقع چیلنجز سے نمٹنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ مقصد ہے کہ پروگرام کو طلباء کی ضروریات اور تجربات کی بنیاد پر مسلسل بہتر بنایا جائے۔
سستی روٹی اور آٹا
مریم نواز کے دورِ حکومت کی ایک اہم ترین خصوصیت روٹی کی قیمتوں میں کمی ہے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے روٹی کی قیمت کو 20 روپے سے کم کر کے 16 روپے کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کا مقصد پنجاب کے شہریوں، خاص طور پر کم آمدنی والے گروہوں، پر مالی بوجھ کو کم کرنا تھا تاہم کچھ علاقوں میں قیمت کو مزید کم کر کے 12 روپے کر دیا گیا۔ اس سخت کمی کا مقصد اس اہم غذائی اشیاء کو مختلف شہروں میں مزید سستا اور قابلِ رسائی بنانا تھا۔ قیمت مختلف شہروں میں قدرے مختلف تھی جیسے بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یار خان میں روٹی کی قیمت 12 روپے مقرر کی گئی جبکہ لاہور جیسے شہروں میں اسے 14 روپے مقرر کیا گیا۔
روٹی کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت نے آٹے کی قیمت کو کم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی۔ سال 2023 تا 2024 کیلئے گندم کی کم از کم سپورٹ قیمت 3 ہزار 9 سو روپے فی 40 کلوگرام مقرر کی گئی جو مارکیٹ کو مستحکم کرنے اور گندم کے آٹے کی قیمت کو کم کرنے کے لئے ایک اقدام تھا۔ اس قیمت کی ایڈجسٹمنٹ سے آٹے کی مارکیٹ قیمت کو کم کرنے کی توقع کی گئی تاکہ عام عوام کے لئے اسے زیادہ سستا بنایا جا سکے۔ نئی قیمتوں کی تعمیل کو یقینی بنانے کیلئے مریم نواز اور ان کی ٹیم نے مختلف نان شاپس کا دورہ کیا تاکہ فروخت کی قیمتوں کا معائنہ کریں اور عوام سے بات چیت کریں۔ اس براہِ راست شمولیت نے حکومت کے ان قیمتوں کے کنٹرول کو نافذ کرنے اور زیادہ قیمتوں سے متعلق شکایات کا ازالہ کرنے کے عزم کو اجاگر کیا۔
سمارٹ سیف سٹی پروجیکٹ
مریم نواز کے اہم اقدامات میں سے ایک السمارٹ سیف سٹی پروجیکٹ کا آغاز ہے۔ پی ایس سی اے ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران، انہوں نے 31 دسمبر 2024 تک پنجاب کے ہر ضلع میں اس منصوبے کے نفاذ کی ہدایت کی۔ اس منصوبے کا مقصد جدید نگرانی کی ٹیکنالوجیز اور جامع مانیٹرنگ سسٹمز کے ذریعے صوبے بھر میں سیکیورٹی کے اقدامات کو بڑھانا ہے۔ سمارٹ سیف سٹی پروجیکٹ میں اسپتالوں، بس اسٹینڈز، ہوائی اڈوں، اور ریلوے اسٹیشنز جیسے اہم مقامات پر کیمروں اور مانیٹرنگ سسٹمز کی تنصیب شامل ہے۔ یہ سسٹمز دہشت گردی، چوری اور دیگر جرائم کے مختلف خطرات کا پتہ لگانے اور ان کے ردعمل کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
مریم نواز نے خواتین کی حفاظت پر خاص زور دیا ہے۔ انہوں نے اپ گریڈ شدہ ویمن سیفٹی ایپ کی فوری تعیناتی کی ہدایت کی، جو ایک کلک کے ساتھ 43 خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہ ایپ خواتین کے لئے ایک اہم ٹول ہے تاکہ وہ واقعات کی اطلاع دے سکیں اور ہنگامی صورت حال میں مدد حاصل کر سکیں۔ مزید برآں، انہوں نے خواتین پولیس کمیونیکیشن آفیسرز کے لئے ہاسٹل کی تعمیر کا اعلان کیا جو عوامی حفاظت کی دیکھ بھال میں ان کے کردار کی مزید اہم بناتی ہے۔ پاکستان کے پہلے ورچوئل خواتین پولیس سٹیشن “میری آواز، مریم نواز” کا افتتاح بھی ایک قابلِ ذکر کامیابی ہے۔ یہ سٹیشن خواتین کو لائیو چیٹ، ویڈیو کالز اور مخصوص ایپ کے ذریعے پولیس خدمات سے منسلک ہونے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کے لئے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے اور تفتیش اور مقدمے کے مراحل میں مدد فراہم کرنا ہے۔
کرائم سٹاپر ایپ کی تعارف بھی ایک اہم قدم ہے۔ یہ ایپ شہریوں کو مختلف جرائم جیسے کہ دہشت گردی، عصمت دری، اور منشیات کی سمگلنگ کی اطلاع دینے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس ایپ کے ٹرائل رن نے جرائم کا بروقت پتہ لگانے اور رپورٹنگ میں امید افزا نتائج دکھائے ہیں۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال ایپ میں اس کی قابلیتوں کو بڑھاتا ہے تاکہ ٹریفک کی خلاف ورزیوں اور دیگر عوامی تحفظ کے خدشات کی نگرانی اور روک تھام کی جا سکے۔ مریم نواز کی انتظامیہ نے پنجاب کے 18 شہروں میں سیف سٹی پروجیکٹس کے نفاذ کے لئے معاہدے بھی کئے ہیں۔ اس میں ایئر کوالٹی انڈیکس مانیٹرنگ ماحول کے سینسرز کی تنصیب اور گجرات، جہلم، شیخوپورہ اور ملتان جیسے شہروں میں نگرانی کے نظام کی تعیناتی شامل ہے۔ اس اقدام کا مقصد پنجاب کے تمام رہائشیوں کے لئے ایک محفوظ ماحول بنانا ہے۔
ان خصوصیات کے علاوہ، منصوبے میں لاہور میں 100 جدید ایمرجنسی پینک بٹنز کی تنصیب شامل ہے۔ ان پینک بٹنز کو، جنہیں یونیورسٹیوں، کالجز، بازاروں، اور چوراہوں جیسے مقامات پر اسٹریٹجک طور پر رکھا گیا ہے، فوری طور پر سیف سٹی حکام کو مطلع کرنے کے لئے دبایا جا سکتا ہے۔ یہ تیز ردعمل کا نظام عوامی مقامات پر خواتین کی حفاظت کو مزید بہتر بنانے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
خصوصی بچوں کے لئے تعلیم
مریم نواز نے پنجاب کے ہر ضلع میں خصوصی ضروریات کے بچوں کے لئے جدید تعلیمی مراکز کے قیام کا اعلان کیا۔ ان مراکز کا مقصد خصوصی ضروریات کے بچوں کے لئے اعلی معیار کی تعلیم فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ دوسرے بچوں کی طرح تعلیمی مواقع حاصل کر سکیں۔ مراکز کو خصوصی تدریسی عملے، موافقت پذیر تعلیمی اوزار، اور مختلف قسم کی معذوریوں کی حمایت کے لئے وسائل سے لیس کیا گیا ہے، جن میں جسمانی معذوری سے لے کر تعلیمی معذوری تک شامل ہیں۔
خصوصی بچوں کی منفرد ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے، ان کے سیکھنے کی ضروریات کے مطابق مخصوص نصاب تیار کرنے کے لئے کوشش کی گئی ہے۔ اس میں اساتذہ کی تربیت شامل ہے تاکہ وہ خصوصی بچوں کے تعلیمی چیلنجوں کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان کا مقابلہ کر سکیں۔ نصاب کو شامل کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے، جس میں عملی مہارتوں، تھراپیٹی سرگرمیوں، اور پیشہ ورانہ تربیت پر زور دیا گیا ہے تاکہ بچے معاشرے میں ضم ہو سکیں اور خود مختاری حاصل کر سکیں۔
مریم نواز کی انتظامیہ نے خصوصی بچوں کے لئے تعلیم کے معیار کو بڑھانے کے لئے عوامی نجی شراکت داری پر بھی توجہ دی ہے۔ این جی اوز اور نجی شعبے کے ساتھ تعاون کرکے، حکومت اضافی وسائل، مہارت، اور جدید طریقوں کا فائدہ اٹھانے کا مقصد رکھتی ہے۔ یہ مشترکہ نقطہ نظر خصوصی بچوں کے لئے زیادہ جامع معاون نظام بنانے میں مدد کرتا ہے، جس میں اضافی سرگرمیاں، نفسیاتی مدد، اور کیریئر مشاورت شامل ہیں۔
رسائی کو یقینی بنانے کے لئے، نئے تعلیمی مراکز کو خصوصی بچوں کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کی سہولیات کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں ریمپس
، لفٹیں، اور خصوصی ٹرانسپورٹیشن خدمات شامل ہیں۔ مزید برآں، جہاں ممکن ہو، عام اسکولوں میں شمولیتی تعلیم کے طریقوں کے نفاذ کے ذریعے خصوصی بچوں کو شامل کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
اس اقدام کا ایک اہم حصہ والدین اور کمیونٹی کو تعلیمی عمل میں شامل کرنا ہے۔ والدین کے لئے باقاعدہ ورکشاپس اور تربیتی سیشنز کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی تعلیمی سفر میں گھر پر مدد کر سکیں۔ کمیونٹی آگاہی پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں تاکہ بدنامی کو کم کیا جا سکے اور خصوصی بچوں کے لئے زیادہ قبول کرنے والا رویہ فروغ دیا جا سکے۔
خواتین پولیس کے لئے ہاسٹل
وزیر اعلیٰ نے خواتین پولیس اہلکاروں کے لئے ہاسٹل کی تعمیر کے منصوبے کے آغاز کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کے لئے کام کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے بھی اہم اقدامات کئے ہیں۔ یہ اقدام خواتین پولیس فورس کے لئے فلاح و بہبود اور پیشہ ورانہ ماحول کو بہتر بنانے کے ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
یہ ہاسٹلز خواتین پولیس اہلکاروں کے لئے محفوظ، معاون، اور آسان رہائش فراہم کرنے کے لئے ڈیزائن کئے گئے ہیں۔ ان رہائش گاہوں کی اہمیت پولیس کے کام کی مطالباتی اور اکثر چیلنجنگ نوعیت کے پیش نظر اہم ہے، جس کے لئے افسران کو اپنے کام کی جگہوں کے قریب قابل اعتماد اور محفوظ رہائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اقدام کا مقصد خواتین پولیس اہلکاروں کو درپیش منفرد چیلنجوں کا ازالہ کرنا ہے، جیسے کہ ان کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانا، تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں زیادہ موثر طریقے سے انجام دے سکیں۔
وائلڈ لائف سروے
مریم نواز نے 530 ملین پاکستانی روپے کی مالیت کے جامع سروے کے ذریعے جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے بھی ایک قابل ذکر اقدام شروع کیا ہے۔ اس سروے کا مقصد صوبے میں متنوع جنگلی حیات کا جائزہ لینا اور ان کی حفاظت کرنا ہے، جو نایاب انواع اور ان کے مسکن پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد تحقیق، نگرانی، اور تحفظ کے اقدامات کو بہتر بنانا ہے تاکہ پائیدار تحفظ کی کوششوں کو یقینی بنایا جا سکے۔
مریم نواز کا جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے عزم پائیدار ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے ان کے وسیع وژن کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اس اقدام سے جنگلی حیات کی آبادیوں اور ماحولیاتی نظاموں پر قیمتی ڈیٹا فراہم ہونے کی توقع ہے، جو مستقبل کی تحفظ کی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کو مطلع کرے گا۔ اس سروے کے لئے بڑے پیمانے پر فنڈز مختص کرکے، ان کی قیادت میں پنجاب حکومت ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے اور حیاتیاتی تنوع کو فروغ دینے کے لئے ایک فعال نقطہ نظر ظاہر کرتی ہے۔
ورچوئل خواتین پولیس اسٹیشنز
میری آواز…مریم نواز کے نام سے جانا جانے والا ورچوئل خواتین پولیس اسٹیشن خواتین کو خود پولیس اسٹیشن جانے کی ضرورت کے بغیر سہولت فراہم کرنے کے لئے مختلف خصوصیات پیش کرتا ہے۔ ایک اہم خصوصیت لائیو ویڈیو کال کی فعالیت ہے، جو خواتین کو حقیقی وقت میں اور محفوظ مقام سے واقعات کی اطلاع دینے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ خصوصیت خاص طور پر ان خواتین کے لئے اہم ہے جو فوری خطرات کا سامنا کر رہی ہیں یا فوری مدد کی ضرورت ہے۔ حکام کے ساتھ براہ راست بصری مواصلات کو فعال کرکے، یہ خواتین کی ضروریات کو پورا کرنے میں اعتماد اور عجلت کا احساس پیدا کرتا ہے۔
پرائیویسی اور گمنامی اس ورچوئل پولیس اسٹیشن کی کارروائی کے مرکز میں ہیں۔ خواتین اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر شکایات درج کر سکتی ہیں، جس سے ان کی حفاظت یقینی بنتی ہے اور زیادہ خواتین کو اپنے مسائل کے ساتھ سامنے آنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ طریقہ خاص طور پر حساس معاملات جیسے ہراسانی اور گھریلو تشدد کے لئے فائدہ مند ہے، جہاں پرائیویسی کے خدشات اکثر متاثرین کو مدد طلب کرنے سے روکتے ہیں۔
ورچوئل اسٹیشن خواتین کو جامع مدد فراہم کرتا ہے، جس سے وہ جرم رپورٹنگ کے عمل کے تمام مراحل میں رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج سے لے کر تفتیش اور مقدمے کے مراحل تک، خواتین کو ہر قدم پر مدد ملتی ہے۔ یہ جامع نقطہ نظر یقینی بناتا ہے کہ خواتین کو پیچیدہ قانونی اور طریقہ کار کی دنیا میں تنہا نہیں چھوڑا جاتا۔
اپنے ورچوئل خواتین پولیس اسٹیشن کے دورے کے دوران، مریم نواز نے خواتین کمیونیکیشن پولیس افسران کے ساتھ بات چیت بھی کی، جو خاص طور پر تربیت یافتہ آئی ٹی گریجویٹس ہیں۔ یہ افسران پیشہ ورانہ اور ہمدردی کے ساتھ شکایات کو سنبھالنے کے ذمہ دار ہیں، جس سے خواتین کی شکایات کو فوری اور مؤثر طریقے سے پورا کیا جا سکے۔
پنجاب بھر میں مفت وائی فائی ہاٹ سپاٹس
مفت وائی فائی کا اقدام، جو سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے 2013 میں شروع کیا تھا، پی ٹی آئی حکومت کے دور میں مالی مشکلات اور انٹرنیٹ فراہم کنندگان کو بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے منقطع کر دیا گیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے ساتھ، مریم نواز نے اس منصوبے کو بحال کیا ہے، اس کے عوامی انٹرنیٹ تک رسائی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے۔
منصوبے کا انتظام پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کے ذریعے کیا جاتا ہے اور یہ لاہور میں 50 مفت وائی فائی ہاٹ سپاٹس کے قیام سے شروع ہوا۔ یہ ہاٹ سپاٹس کلیدی عوامی مقامات پر اسٹریٹجک طور پر رکھے گئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہو سکے۔ نمایاں مقامات میں تعلیمی ادارے جیسے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز)، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور (جی سی یو)، اور لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی (ایل سی ڈبلیو یو) شامل ہیں۔ شالیمار ہسپتال، اتفاق ہسپتال، جنرل ہسپتال، ال رازی ہسپتال، اور چلڈرن ہسپتال جیسے ہسپتال بھی کور کئے گئے ہیں، جو عملے اور مریضوں دونوں کے لئے ضروری رابطے فراہم کرتے ہیں۔ عوامی علاقوں جیسے لبرٹی مارکیٹ، ایم ایم عالم روڈ، شادمان چوک، قذافی اسٹیڈیم، سر گنگا رام چوک، اور منی مارکیٹ بھی شامل ہیں تاکہ عوامی سہولت کو بہتر بنایا جا سکے۔
مریم نواز نے اعلان کیا ہے کہ مفت وائی فائی سروس کو لاہور کے 516 مقامات تک بڑھانے کے منصوبے ہیں، جس میں مزید عوامی مقامات جیسے ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشنز، بس اسٹینڈز، اور اضافی تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ اس توسیع سے لاہور اور پنجاب کے دیگر شہری علاقوں کے رہائشیوں کے لئے انٹرنیٹ کی دستیابی میں نمایاں بہتری کی توقع ہے۔ اس اقدام کا مقصد طلباء کو آن لائن تعلیمی وسائل تک بہتر رسائی فراہم کرنا، ہسپتالوں میں طبی معلومات اور مواصلات کو بہتر بنانا، اور بازاروں، پارکوں، اور نقل و حمل کے مراکز میں عوامی سہولت کو بہتر بنانا ہے۔
لاہور گارمنٹ سٹی
لاہور گارمنٹ سٹی کو ایک “پلگ اینڈ پلے” سہولت کے طور پر تصور کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ تمام ضروری انفراسٹرکچر اور خدمات کے ساتھ لیس ہو گی جو ملبوسات کی تیاری کے لئے درکار ہیں۔ اس میں جدید شیڈز، ویونگ یونٹس، ڈائینگ سہولیات، اور دیگر متعلقہ یونٹس شامل ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد بڑے ملبوسات کی صنعتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے، جو کام کرنے اور بڑھنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ مزید برآں، یہ کارکنوں کے لئے تکنیکی تربیت فراہم کرے گا، تاکہ مقامی ورک فورس کو ہنر مند بنایا جا سکے اور صنعت کی مطالبات کو پورا کیا جا سکے۔
لاہور گارمنٹ سٹی کی سب سے قابل ذکر خصوصیات میں سے ایک اس کا ماحولیاتی استحکام کے لئے عزم ہے۔ یہ منصوبہ گرین اور سولر انرجی سسٹمز سے چلایا جائے گا، جس سے اس کا کاربن فوٹ پرنٹ کم ہو گا اور پائیدار صنعتی طریقوں کو فروغ ملے گا۔ یہ عالمی ملبوسات کی صنعت میں رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ ہے، جہاں ماحول دوست پیداواری طریقوں پر بڑھتی ہوئی توجہ دی جا رہی ہے۔
لاہور گارمنٹ سٹی کے قیام سے متوقع اقتصادی اثرات بہت بڑے ہیں۔ ایک جدید مینوفیکچرنگ حب بنا کر، اس منصوبے کا مقصد برآمدات میں اضافہ کرنا، روز
گار پیدا کرنا، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ پلگ اینڈ پلے ماڈل نئے کاروباروں کے لئے آپریشنز قائم کرنے کے عمل کو آسان بنائے گا، بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کرے گا، اور کاروبار کے لئے دوستانہ ماحول کو فروغ دے گا۔
اس منصوبے کی قیادت وزیر برائے صنعت، چوہدری شافع حسین کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی کمیٹی کر رہی ہے۔ اس کمیٹی کا کام بڑے ملبوسات کی صنعتوں سے اظہار دلچسپی کی درخواستیں طلب کرنا اور شہر کے انفراسٹرکچر کی ترقی کی نگرانی کرنا ہے۔ لاہور گارمنٹ سٹی کو کئی ایسے منصوبوں میں سے پہلے کے طور پر تصور کیا گیا ہے، جس کے تحت اس پائلٹ منصوبے کی کامیابی کے بعد اس ماڈل کو پنجاب کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کے منصوبے ہیں۔
نئی ایکسپریس ویز
یہ ایکسپریس ویز صوبے بھر میں کنیکٹیویٹی کو نمایاں طور پر بہتر بنانے، سفر کے وقت کو کم کرنے، اور حفاظت کو بڑھانے کا مقصد رکھتے ہیں۔ یہاں ہر ایکسپریس وے کی تفصیلات اور اس کے متوقع اثرات پر ایک گہرائی سے نظر ہے:
ملتان سے وہاڑی ایکسپریس وے
– لمبائی: 93.5 کلومیٹر
– تفصیلات: اس ایکسپریس وے کا مقصد جنوبی پنجاب کے ایک بڑے شہر ملتان کو وہاڑی سے جوڑنا ہے۔ موجودہ سنگل کیریج وے کو ڈبل کیریج وے میں تبدیل کر کے، اس منصوبے کا مقصد اکثر ہونے والے حادثات کو کم کرنا اور سفر کے وقت کو نمایاں طور پر کم کرنا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ پروجیکٹ ملتان اور وہاڑی کے درمیان تجارت اور نقل و حمل کو آسان اور تیز بنائے گا۔
– اثرات: بہتر سڑک روزانہ ہزاروں مسافروں کی خدمت کرے گی، تجارت اور نقل و حمل کو بہتر بنائے گی۔ ملتان اور وہاڑی کے درمیان سفر کا وقت، جو فی الحال کئی گھنٹے لیتا ہے، نمایاں طور پر کم ہو جائے گا، جس سے علاقائی کنیکٹیویٹی میں بہتری آئے گی۔
فیصل آباد سے چنیوٹ ایکسپریس وے
– لمبائی: 24 کلومیٹر
– تفصیلات: یہ نسبتاً مختصر لیکن اہم ایکسپریس وے فیصل آباد، جو اپنے وسیع ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے، کو چنیوٹ سے جوڑ دے گا، جو فرنیچر اور لکڑی کے دستکاری کے لئے اہم شہر ہے۔
– اثرات: نئی سڑک 45 منٹ کے سفر کے وقت کو تقریباً 25 منٹ تک کم کر دے گی، روزانہ مسافروں کے لئے آسانی پیدا کرے گی اور دونوں شہروں کے درمیان اقتصادی روابط کو بڑھاوا دے گی۔ اس ترقی سے اس راستے پر حادثات کی تعداد میں کمی کی توقع ہے۔
بہاولپور سے چنگرا ایکسپریس وے
– لمبائی: 42 کلومیٹر
– تفصیلات: بہاولپور، جو اپنی تاریخی اہمیت اور ثقافتی ورثے کے لئے مشہور ہے، کو چنگرا سے جوڑنے والے اس ایکسپریس وے کے تحت موجودہ انفراسٹرکچر کو ڈبل کیریج وے میں اپ گریڈ کیا جائے گا، جس سے بہتر ٹریفک مینجمنٹ اور بہاؤ کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
– اثرات: یہ سفر زیادہ موثر ہو جائے گا، جس سے بہاولپور میں سیاحت اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ متوقع ہے، جو پہلے ہی جنوبی پنجاب میں ایک بڑھتا ہوا اقتصادی مرکز ہے۔
ساہیوال سے سمندری ایکسپریس وے
– لمبائی: 57.7 کلومیٹر
– تفصیلات: اس ایکسپریس وے کا مقصد ساہیوال، ایک زرعی مرکز، کو سمندری سے جوڑنا ہے۔ موجودہ سنگل کیریج وے کو ڈبل کیریج وے میں اپ گریڈ کر کے، اس ایکسپریس وے کا مقصد ایک گھنٹہ اور پندرہ منٹ کے سفر کے وقت کو تقریباً 40 منٹ تک کم کرنا ہے۔
– اثرات: اس سفر کے وقت کی کمی سے مقامی کسانوں اور تاجروں کو مارکیٹوں تک جلد رسائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی، جس سے اس علاقے کی زرعی معیشت میں بہتری آئے گی۔
چیچہ وطنی سے لیہ ایکسپریس وے
– لمبائی: 199 کلومیٹر
– تفصیلات: پانچ نئے ایکسپریس ویز میں سے سب سے لمبا، یہ سڑک چیچہ وطنی کو لیہ سے جوڑے گی، جس سے صوبے بھر میں ایک اہم نقل و حمل کا راستہ فراہم ہو گا۔ اس منصوبے سے خراب حالت میں موجود سنگل کیریج وے کو جدید ڈبل کیریج وے میں تبدیل کر دیا جائے گا، جس سے سفر کے تجربے میں نمایاں بہتری آئے گی۔
– اثرات: ایکسپریس وے سفر کے وقت کو چار گھنٹوں سے کم کر کے صرف دو گھنٹوں تک کر دے گی۔ اس سفر کے وقت کی نمایاں کمی سے اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ متوقع ہے، تجارت میں بہتری آئے گی، اور لیہ کے دیگر حصوں کے ساتھ کنیکٹیویٹی کو بہتر بنایا جائے گا۔
سی ایم پنک گیمز
سی ایم پنک گیمز کا باضابطہ افتتاح مریم نواز نے 2 مئی 2024 کو ایک شاندار تقریب میں کیا۔ یہ ایونٹ ایک بھرپور کھیل اور ثقافتی ورثے کے مظاہرہ کے ساتھ شروع ہوا۔ پنجاب کی 16 یونیورسٹیوں سے خواتین ایتھلیٹس نے مختلف کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ افتتاحی تقریب میں والی بال کی کھلاڑی زینت وقار نے وزیر اعلیٰ کو مشعل پیش کی، جس کے بعد شاندار لائٹ شو اور روایتی رقص پیش کیا گیا۔ اپنے افتتاحی خطاب میں مریم نواز نے خواتین کی خود مختاری اور نوجوان خواتین میں اعتماد اور مزاحمت پیدا کرنے کے لئے کھیلوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کھیلوں میں خواتین کی مواقع کو محدود کرنے والی معاشرتی رکاوٹوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، بیٹیوں کی حمایت میں والدین کی اہمیت پر زور دیا۔
سی ایم پنک گیمز میں سب سے قابل ذکر اعلانات میں سے ایک انعامی رقم میں دوگنا اضافہ تھا۔ ابتدائی طور پر 50 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی، انعامی رقم کو بڑھا کر ایک کروڑ روپے کر دیا گیا۔ اس اہم اضافے نے حکومت کے عزم کو انعام اور تسلیم کرنے کے عزم کی نشاندہی کی۔ بڑھتی ہوئی انعامی رقم کا مقصد زیادہ خواتین کو کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دینا اور ان کی کامیابیوں کو بلند سطح پر منانا تھا۔ سی ایم پنک گیمز میں پنجاب کے مختلف حصوں سے 1300 خواتین ایتھلیٹس نے شرکت کی۔ ایتھلیٹس نے والی بال، ایتھلیٹکس، باسکٹ بال، تیر اندازی، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس، اور کرکٹ سمیت مختلف کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس ایونٹ نے ان ایتھلیٹس کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے اور اعلی سطح پر مقابلہ کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کیا، جو صوبے میں کھیلوں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور شرکت کی عکاسی کرتا ہے۔
ایتھلیٹکس اور باسکٹ بال میں لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی نے فتح حاصل کی، جبکہ پنجاب یونیورسٹی نے تیر اندازی، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس، اور کرکٹ میں غالب رہی۔ سپیریئر یونیورسٹی لاہور کی ٹیم نے ہاکی کے فائنل میچ میں فتح حاصل کی۔ ان فتوحات کا جشن اختتامی تقریب میں منایا گیا جہاں مریم نواز نے جیتنے والی ٹیموں کو ٹرافیاں اور نقد انعامات پیش کئے۔ سی ایم پنک گیمز کی اختتامی تقریب ایک یادگار ایونٹ تھی، جہاں مریم نواز نے جیتنے والی ٹیموں کو ٹرافیاں اور نقد انعامات پیش کئے۔ انہوں نے 321 جیتنے والی ٹیموں کو خود انعامات پیش کئے اور ایتھلیٹس سے بات چیت کی، ان کی کامیابیوں پر اپنی خوشی اور فخر کا اظہار کیا۔ ان کی ایتھلیٹس کے ساتھ جذباتی تعلق، خاص طور پر ایک نوجوان کھلاڑی جس نے انہیں پھول پیش کئے، نے گیمز کی کامیابی اور ایتھلیٹس کی کامیابیوں میں ان کی ذاتی دلچسپی کو اجاگر کیا۔
سی ایم پنک گیمز کی کامیابی صرف کھیلوں کی کامیابیوں سے نہیں، بلکہ معاشرتی اثرات سے بھی ماپی جاتی ہے۔ ایونٹ کے دوران مریم نواز کے خطابات نے بیٹیوں کی حمایت کی اہمیت پر زور دیا، چاہے وہ کھیلوں میں ہو یا دوسرے شعبوں میں۔ انہوںRamنے پنجاب بھر میں پنک گیمز کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لئے مستقبل کے اقدامات کا اعلان کیا جو خواتین اتھلیٹس کے لئے بہتر سہولیات اور زیادہ مواقع فراہم کرنے کریں گے۔
آپ، بحیثیت شہری، ان تمام اقدامات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
اپنے پہلے 100 دنوں میں مریم نواز کی متحرک حکمت عملی نے پنجاب کے مستقبل کے لئے ایک مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ ٹیکنالوجی، صحت کی دیکھ بھال، زراعت، اور عوامی خدمات میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری کے ذریعے، انہوں نے پائیدار ترقی اور شامل کرنے والی نمو کے لئے ایک واضح وژن کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ کوششیں نہ صرف فوری ضروریات کو پورا کرتی ہیں بلکہ طویل مدتی خوشحالی اور پنجاب کے باشندوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں۔ جیسے جیسے ان کی انتظامیہ ان اقدامات کو نافذ کرتی جائیگی، صوبے کے معاشرتی اقتصادی منظرنامے پر مثبت اثرات کی توقع ہے، جو ایک ترقی پذیر اور خوشحال پنجاب کا وعدہ پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔