اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کو براہِ راست نشر کیا گیا، عدالتِ عظمٰی میں کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کی۔
سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا آغاز کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے تحریکِ انصاف کی مخصوص نشستوں کی لسٹ طلب کی تھی وہ نہیں ملی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ سارا ریکارڈ جمع کرا دیا ہے، کیس سے متعلق حتمی پیپر بک جمع کرا دی ہے، الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ مجھے 81 آزاد امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مہیا کریں، میں تحریکِ انصاف کے فارم 66 بھی عدالت کو مہیا کر دوں گا۔
سکندر بشیر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل 81 آزاد ارکان کے کاغذاتِ نامزدگی بھی منگوائے تھے، تمام ریکارڈ ضلعی سطح پر ہوتا ہے، مکمل ریکارڈ نہیں ملا، اس کی سمری موجود ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ تحریکِ انصاف کی ترجیحی فہرست بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے تعلق اور تحریکِ انصاف سے اتحاد ظاہر کیا، حامد رضا نے شٹل کاک کا انتخابی نشان مانگا تھا جو کسی اور کو الاٹ ہو چکا تھا، حامد رضا بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حامد رضا کے خط میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ اپنا پارٹی سرٹیفکیٹ واپس لینا چاہتے ہیں، حامد رضا نے تو کہا بلے کا نشان دیں، اگر نہ ملے تو شٹل کاک دیا جائے، کیا یہ کہنے سے امیدوار آزاد ہو جاتا ہے؟ تحریکِ انصاف نظریاتی کا بھی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریکِ انصاف نظریاتی کا ٹکٹ نہیں جمع کرایا گیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات کے مطابق بظاہر حامد رضا کے کاغذاتِ نامزدگی میں تضاد ہے، ریٹرننگ افسر کو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے، کیا ریٹرننگ افسر کو ایسے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دینے چاہئیں؟ سرٹیفکیٹ دوسری جماعت کا جمع کرایا اور کہا کہ منسلک تحریکِ انصاف سے ہوں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر تضاد تھا تو جو فارم اے جمع ہوا تھا الیکشن کمیشن نے اس کو کیوں نہ دیکھا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ایک انسان شادی کرنا چاہے تو اس کی اپنی چاہت ہے مگر شادی کے لیے لڑکی کا راضی ہونا بھی ضروری ہے، زبردستی شادی تو نہیں کی جا سکتی، ہو سکتا ہے ایک جماعت حامد رضا کو کہتی ہو کہ آپ ہمارے امیدوار بنیں، تضاد الیکشن کمیشن نے نہیں حامد رضا نے خود بنایا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کو آئینی ادارہ تسلیم کرتے ہیں، محض انتخابات کا انعقاد کافی نہیں، جب ہم جمہوریت یا انتخابات کی بات کرتے ہیں تو عوام کی منشا کی بات ہوتی ہے، اگر انتخابی عمل پر سوالات اٹھ جائیں تو ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، الیکشن کمیشن یہ نہیں کہہ سکتا ہے فلاں وکیل یا امیدوار نے غلطی کی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ تحریکِ انصاف کو جماعتی انتخابات نہ کرانے کی سزا ملی، بلے کا نشان الیکشن کمیشن نے کسی کو بھی الاٹ نہیں کیا، فیصلے کی غلط تشریح کا کسی کے پاس علاج نہیں ہے، بلے کے نشان اور پارٹی امیدوار کو نتھی کیوں کیا جا رہا ہے؟ تحریکِ انصاف کا امیدوار کیوں کوئی اور جماعت جوائن کرے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیکشن 240 کے مطابق صدر سے رجوع کیا جاتا ہے، صدر کی مرضی ہے کب جواب دیں نہ دیں یا کوئی اور بات کر دیں، صدر کہتے ہیں الیکشن کی تاریخ دینا ان کی ذمہ داری ہے لیکن تاریخ نہیں دیتے، اس وقت کے صدر نے آج تک نہیں بتایا کہ الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب امیدواروں کا تضاد سامنے آیا تو نگران حکومت تھی، نگران حکومت بھی الیکشن کمیشن کی طرح غیر جانبدار اور آزاد ہوتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی نشان بعد کی بات ہے، امیدوار انتخابات میں حصہ لیتا ہے پارٹی نہیں لیتی، امیدوار صرف پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتا ہے، امیدوار کا حق ہے کہ اسے انتخابات کیلئے نشان ملے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملک میں انتخابات کروائے، مفروضوں والی باتیں کیس میں نہ کریں۔
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پشاور کے 5 رکنی بینچ کو مطمئن کیا اور میرے دلائل کو ججز نے باہر نہیں پھینکا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایسا نہ کہیں کہ 5 رکنی بینچ نے فیصلہ دے دیا تو بس ہو گیا۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ 81 امیدواروں میں سے 6 نے ڈہکلیریشن اور پارٹی سرٹیفکیٹ دیا، کیا الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کےان 6 امیدواروں کے حساب سے مخصوص نشستیں دیں؟ پارٹی سرٹیفکیٹ اور ڈیکلیریشن دونوں تھے تو 6 امیدواروں کو آزاد کیسے قرار دیا گیا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم ایک اپیل سن رہے ہیں، ہمارے سامنے انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کا معاملہ نہیں، اس کے باوجود ہمارے سامنے 90 فیصد دلائل انتخابی نشان پر ہو رپے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ پشاور ہائیکورٹ کے 5 ججز ہمارے فیصلے کو برقرار رکھ چکے ہیں۔
جسٹس منصور علی نے کہا کہ ہم پشاور ہائیکورٹ کے پانچ ججز کے فیصلے کے پابند نہیں، ہم نے جو اصل مسئلہ ہے اسے دیکھنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعت کو ڈس فرنچائز کیسے کر سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ انتخابی نشان نہیں ہو گا تو تحریکِ انصاف جماعت نہیں ہو گی؟ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے اور اس میٹنگ کا ریکارڈ دکھائیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں ریکارڈ دیکھ کر بتاؤں گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بھی بتائیں کہ الیکشن کمیشن کا اختیار کیا ہے کسی کو آزاد ڈیکلئیر کرنے کا؟ وابستگی کا معاہدہ امیدوار اور جماعت کے درمیان ہوتا ہے، آپ کوئی ایک قانون کی شق دکھا دیں، الیکشن کمیشن نے انہیں کیسے آزاد ڈیکلیئر کر دیا؟
جسٹس منصور علی نے کہا کہ اس کا جواب یہی ہے کہ آپ نے بس انتخابی نشان نہ ہونے پر اس جماعت کو الیکشن سے باہر رکھا؟ بس ہمیں یہ بتا دیں الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر یہ سوچا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہوا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے میجر پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، اب انتخابی نشان کا فیصلہ دینے والا بینچ آپ کو خود بتا رہا ہے کہ آپ کی تشریح غلط تھی۔
وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے کہا کہ یہ صرف آبزرویشن ہیں، ابھی اس متعلق کوئی فیصلہ نہیں آیا، انتخابی نشان والے فیصلے کیخلاف نظرِ ثانی زیرِ التواء ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم ایک اپیل سن رہے ہیں، ہمارے سامنے انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کا معاملہ نہیں، اس کے باوجود ہمارے سامنے 90 فیصد دلائل انتخابی نشان پر ہو رہے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی مزید سماعت یکم جولائی تک ملتوی کر دی۔