اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عدالتی نظام درست کرنے کیلئے آئینی عدالت ضروری ہے، سپریم کورٹ میں 15 فیصد کیسز آئینی ہوتے ہیں جنہیں 90 فیصد ٹائم ملتا ہے، میثاقِ جمہوریت کے تحت آئینی عدالت قائم کی جانی چاہیے جہاں ججز ڈیم بنانے اور قیمتیں چیک کرنے کی بجائے اپنا اصل کام کریں، ججز کی تعیناتی کے نظام کو بھی درست کرنا ہو گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملک بھر کے وکلاء نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میثاقِ جمہوریت کے تحت آئینی عدالت قائم کی جانی چاہیے، آئینی عدالت کا قیام بےنظیر بھٹو کا ویژن تھا، ہمیں عدالتی تقرریوں کا عمل درست کرنا ہے، وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی آئینی عدالتیں ہونی چاہئیں، آئینی عدالت کا مینڈیٹ آئینی معاملات کی تشریح ہو گا، ججز کی تعیناتی کے نظام کو بھی درست کرنا ہو گا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ افتخار چودھری کے بعد پاکستان میں روایت چلی آ رہی ہے کہ آپ کی رشتہ داری ہے تو آپ جج بنیں گے، اس کا نقصان ہمارے عدالتی عمل کو ہوا ہے، ججز کی تقرری کے عمل میں شفافیت بےنظیر بھٹو کا مطالبہ تھا، جج کا کام ڈیم بنانا یا ٹماٹر پکوڑے کی قیمتیں طے کرنا نہیں بلکہ آئینی ذمہ داریاں پوری کرنا ہے، شہید بی بی کہتی تھیں کہ اگر ججز نے جلوس نکالنے ہیں تو باقاعدہ پارٹی بنائیں، انہیں معلوم تھا کہ عدالت سے سیاست ہو گی تو اس سے آئین، جمہوریت اور عوام کا نقصان ہو گا۔
سابق وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وکلاء نے پاکستان کو 1973 کا آئین دیا، آپ کی محنت سے ہم نے پارٹی کی بنیاد رکھی، آپ کی جدوجہد سے ہم نے پرویز مشرف کی آمریت کو شکست دی، وکلاء نے ہمیشہ آمروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے، آمرانہ دور میں وکلاء نے جمہوریت بحالی کیلئے کوششیں کیں، شہید محترمہ بےنظیر بھٹو نے ناانصافی دیکھی، ان کے والد کا عدالتی قتل ہوا، شہید بےنظیر بھٹو کا ویژن تھا کہ ہمیں آئینی عدالت قائم کرنا ہو گی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ہمیں انصاف کیلئے 50 برس تک انتظار کرنا پڑا، قائدِ عوام کیلئے انصاف کا انتظار کرنا پڑا، بیٹی کے بعد نواسہ نواسی آئے تب جا کر انصاف کی باری آتی ہے، عوام کو ہم نے جلدی اور فوری انصاف دلوانا ہے، سپریم کورٹ میں 15 فیصد کیس آئینی ہوتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ ان 15 فیصد کیسز کو 90 فیصد ٹائم ملتا ہے، جب 15 فیصد کیسز 90 فیصد وقت لیتے ہیں تو کیا ان کیلئے الگ عدالت نہ بنائی جائے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو سیاست سے نقصان پہنچا ہے، پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیمو کریسی (میثاقِ جمہوریت) پر دستخط کیے ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ ججز کی تعیناتی کا نظام وضع کیا گیا، افتخار چودھری نے جو بنیاد ڈالی اسے کبھی ثاقب نثار نے تو کبھی گلزار احمد نے آگے بڑھایا، پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ عوام کا فیصلہ ہو گا کہ جج کون بنے گا، عدالتوں میں اتنے سارے کیسز پینڈنگ ہیں، ججز کی تعیناتی کے نظام کو درست کرنا ہو گا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں حکومت کی تجویز ناکافی ہے، وفاقی عدالت میں آئینی عدالت بن سکتی ہے تو صوبائی عدالتوں میں بھی ہونی چاہئیں، اگر آپ مطمئن نہیں تو پھر آئینی عدالت کو بننا چاہیے، میں اپنا مؤقف دینے کیلئے آج یہاں خود کھڑا ہوں، آج بھی وکلاء میرے بازو ہیں، چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت وعدے کے مطابق ترمیم کرنے تک پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ عوام کو جلد اور فوری انصاف ہماری ترجیحات میں شامل ہے، عوام کو جلد انصاف کی فراہمی کے لیے اقدامات یقینی بنانے ہیں، وکلا میں سے کچھ لوگ پھر چیف تیرے جانثار کا نعرہ لگائیں گے، وکلاء جانتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی میں کتنی مشکلات ہیں، کسی شخصیت کے بجائے عوام کے حق میں نعرہ لگایا جائے، جانتا ہوں وکلاء کو مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے استعمال کیا جائے گا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اٹھاون ٹو بی کو پہلے چیف جسٹس نے یوسف رضا گیلانی کے خلاف اور پھر جسٹس کھوسہ نے میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت کی حکومت کے خلاف استعمال کیا، آئینی عدالت بنانی چاہیے جہاں زیادہ وقت لینے والے تمام کم کیسز سنے جائیں، جہاں پر ججز ڈیم بنانے اور قیمتیں چیک کرنے کی بجائے اپنا اصل کام کریں، اگر اس آئینی ترمیم میں ایسا ہو جائے تو بہتر ہے ورنہ اس کیلئے نئی ترمیم پر کام ہونا چاہیے