ملتان (تھرسڈے ٹائمز) — سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ حکومت تیاری کے بغیر ایوان سے تعاون کی توقع کر رہی تھی، حکومت کے پاس اکثریت نہیں تھی، حکومت کا انحصار جے یو آئی (ف) کے اراکین پر تھا، آئینی عدالت کے قیام پر اتفاقِ رائے موجود ہے، اتحادی حکومت اور جے یو آئی (ف) کے وکلاء آئینی مسودے پر کام کر رہے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مجوزہ آئینی ترمیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت تیاری کے بغیر ایوان سے تعاون کی توقع کر رہی تھی، حکومت سے کہا کہ ہمیں آئینی ترمیم کا مسودہ دکھائیں تاہم حکومت کسی قسم کا مسودہ دینے کیلئے تیار نہیں تھی، حکومت نے ایک کاپی پیپلز پارٹی اور ایک ہمیں دی، مسودہ دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں فرق ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کا مقصد صرف حکومت کو تحفظ دینا تھا، پارلیمانی کمیٹی میں اپنی تجویز بیان کی، آئین ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے لیکن یہاں انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کا دائرہ محدود کر دیا گیا، کئی دہائیوں سے مفادات کا لین دین ہماری سیاست بن گئی ہے لیکن ہم نے نظریات، اصول اور قوم کی آواز کو تقویت دینے کی سیاست کی اور ہر ایسی تجویز کو مسترد کر دیا جو مفادِ عامہ کے خلاف تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب ہمیں مسودہ دیا گیا تھا اس وقت تک حکومت کے پاس اکثریت نہیں تھی، حکومت کا انحصار جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین پر تھا، ہم شکایت کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس مسودہ نہیں ہے اور ہمارے مؤقف کی تائید اس وقت عوام میں زیادہ ہے، حکومت نے آئینی ترمیم پر ہمیں کہا آپ ہمارا ساتھ دیں کیونکہ ہم آپ کی تجاویز پر ججز کی مدت ملازمت میں اضافے کی تجویز اور ججز کی تعداد میں اضافے کی تجویز کو واپس لے رہے ہیں اور فیڈرل آئینی عدالت کی تجویز کو قبول کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں حکومت کی بدنیتی نظر آئی کہ آئینی عدالت کی تجویز قبول کر کے بھی وہ عدالتی ڈھانچہ اس طرح تشکیل دے رہے تھے جس سے مخالفین کو دیوار سے لگایا جائے اور اسے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جائے، حکومت جو آئینی ترمیم لائی اس کو دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہ آئین جو ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اس میں ترمیم کے ذریعہ انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کا دائرہ محدود کرتے ہوئے فوج کے رول میں اضافہ کر دیا گیا۔
قائدِ جمعیت کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو سے ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ وہ بھی تجاویز بنائیں ہم بھی مسودہ تیار کرتے ہیں، آئینی عدالت کے قیام پر اتفاقِ رائے موجود ہے، آئینی عدالت کی تجویز اس لیے دی کہ آئین میں وفاقی عدالتوں کا تصور ہے، دوسری وجہ سپریم کورٹ میں عام لوگوں کے 60 ہزار کیسز زیرِ التواء ہیں جبکہ پورے ملک میں اس وقت 24 لاکھ کیسز زیرِ التوا ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ متبادل تجاویز کیلئے کام شروع کردیا گیا ہے اور کچھ دنوں کے بعد اس کا مسودہ تیار کیا جائے گا، اگر ہم کسی اتفاقِ رائے پر پہنچتے ہیں تو یہ پاکستانی سیاست کیلئے اچھی علامت ہو گی، اتحادی حکومت اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وکلاء آئینی مسودے پر کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر ادارے کا اپنا دائرہ کار ہے جو آئین متعین کرتا ہے اور اگر ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار تک خود کو محدود رکھے گا تو وہ اپنا کردار بڑی خوش اسلوبی سے ادا کر سکے گا، بدقسمتی سے پارلیمنٹ ایسا کردار ادا کر رہی ہے جس میں عوام کی خدمت کم اور طاقتوروں کی خدمت زیادہ ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بارے میں بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم اپوزیشن بینچز پر ہیں اور پاکستان تحریکِ انصاف بھی اپوزیشن میں ہے، ہمارا ابھی تک تحریکِ انصاف سے باضابطہ کوئی اتحاد نہیں ہے تاہم اگر ہماری تحریکِ انصاف کے ساتھ تلخیاں اگر دور ہوتی ہیں اور بہتر تعلقات کی صورت بنتی ہے تو ہمیں مل کر آگے بڑھنا چاہیے۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے بارے میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو سرسری طور پر دیکھا ہے، حکومت جو کام پارلیمنٹ میں نہیں کر سکی اس کو آرڈیننس کے ذریعہ لایا جا رہا ہے، آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہو گا، اگر حکومت غلط کام کرنے پر بضد رہی تو جے یو آئی (ف) ان کے راستے کی رکاوٹ بنے گی۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکتی اور مہنگائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے عوام کے اندر ناراضگی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، ہم انتخابات کو شفاف نہیں مانتے، ہمارا مطالبہ ہے کہ دوبارہ شفاف انتخابات کروائے جائیں۔
پشاور میں ایک تقریب کے دوران پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں افغان قونصل جنرل کے کھڑے نہ ہونے پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر قومی ترانے کیلئے کوئی کھڑا ہو جائے تو احترام ہے اور اگر کوئی احترام میں کھڑا نہیں ہوتا تو کوئی آسمان نہیں گر پڑتا۔