اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ یہاں فیصلوں کو رجسٹرار سے ختم کروایا جاتا رہا، میں کسی کو بینچ میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کر سکتا، کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟ لوگوں کو یہاں مرضی کے بینچز کی عادت ہے لیکن وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آ چکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہو گی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرِثانی درخواستوں پر آج تیسری سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے تفصیلی فیصلہ سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا۔
مفادِ عامہ کے مقدمات میں نظرِثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرِثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی، مختصر فیصلہ آ چکا تھا لیکن تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتہ نہیں تھا نظرِثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے؟
شہزاد شوکت نے کہا کہ مفادِ عامہ کے مقدمات میں نظرِثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے، مفادِ عامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جا سکتا ہے، نظرِثانی 2 سالوں سے سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئی تھی۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا میں پہلے ایک بیان دے دوں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں بیان نہیں گزارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں۔
علی ظفر نے کہا کہ نظرِثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں نظرِثانی فیصلے کے خلاف ہوتی یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہو گی۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ کے آفس نے منظور نہیں کی، مجھے دلائل دینے کیلئے وقت درکار ہے، مجھے عمران خان سے کیس پر مشاورت کرنی ہے، آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، عمران خان سابق وزیراعظم ہیں اور درخواست گزار بھی ہیں، انہیں آئین کی سمجھ بوجھ ہے اور انہیں معلوم ہے کیا کہنا ہے کیا نہیں، مجھے اجازت دیں کہ عمران خان سے معاملے پر مشاورت کر لوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شروع کریں،
علی ظفر نے کہا یعنی آپ میری عمران خان سے ملاقات کی درخواست کو مسترد کر رہے ہیں۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ آپ کل بھی ملاقات کر سکتے تھے۔
علی ظفر نے کہا کہ عمران خان جیل میں ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے، عدالت کوئی حکم جاری کر دیتی، ماضی میں انہیں ویڈیو لنک پر بلایا تھا، وکلاء کی ملاقات بھی کروائی تھی۔
علی ظفر نے کہا کہ مجھے یقین تھا آپ عمران خان سے ملاقات کی درخواست منظور نہیں کریں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل مصطفین کاظمی کی بدتمیزی اور دھمکیاں
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آ گئے اور چیف جسٹس سمیت بینچ میں شامل تمام ججز سے بدتمیزی کرتے ہوئے انہیں دھمکیاں دینے لگ گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کس کی طرف سے ہیں؟
مصظفین کاظمی نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں۔
مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، ہم دیکھتے ہیں آپ کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں، یہ 5 رکنی لارجر بنچ غیر آئینی ہے، دو ججز کی شمولیت غیر آئینی ہے۔
سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں نے مصطفین کاظمی کو باہر نکال دیا
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بےعزت کریں، ہم یہ ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔
علی ظفر نے جواب دیا میں تو بڑے آرام سے بحث کر رہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہو گیا ہے، کمرہِ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جا کر اب شروع ہو جائیں گے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آ کر دلائل دینا چاہے دے۔
بیرسٹر علی ظفر کا بینچ پر اعتراض
بیرسٹر علی ظفر نے ایک بار پھر بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، بینچ قانونی نہیں ہے، بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں۔
علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملہ پر آپ کے ساتھ ہوں، مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی۔
علی ظفر نے کہا کہ دلائل میں کسی نے کیا کہا وہ اہم نہیں، آپ کا فیصلہ اہم ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنا دے تو کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے پسند نہیں؟ یہ ججز کی پسند یا ناپسند کی بات نہیں، قانون معطل تھا، اس کے باوجود میں نے چیف جسٹس بن کر دو سینئر ججز سے مشاورت کی، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، ہم اس وقت نظرِثانی کی درخواست سن رہے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ میں آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کر رہا، میں کہہ رہا ہوں بینچ کی تشکیل اس قانون کے مطابق نہیں ہوئی، قانون کہتا ہے 3 رکنی کمیٹی بیٹھ کر بینچ بنائے گی، قانون کے مطابق بینچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، قانون میں کمیٹی کے دو میمبرز کے بیٹھ کر بینچ بنانے کی گنجائش نہیں، جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں آئے اور خط لکھ دیا، میں وہ خط پڑھنا چاہوں گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، آپ نے وہ خط پڑھا تو اس کا جواب بھی پڑھنا ہو گا، آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی، جسٹس منصور نے آپ کا حوالہ بھی دیا جب آپ سینئر جج تھے، آپ بھی ایک عرصے تک چیمبر ورک پر چلے گئے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے اعمال میں شفافیت تھی، میں سمجھتا تھا قانون کو بل کی سطح پر معطل نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم فل کورٹ میٹنگ بلا کر ایک قانون کو ختم کر سکتے ہیں؟ میری نظر میں میرے کولیگ نے جو لکھا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں تھا، کل میں میٹنگ میں بیٹھنا چھوڑ دوں تو کیا سپریم کورٹ بند ہو جائے گی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منیب 30 ستمبر کو بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب کی غیر موجودگی میں بینچ کو بیٹھنا نہیں چاہیے تھا، جو 4 رکنی بینچ 30 ستمبر کو بیٹھا وہ بینچ کسی نے تشکیل دیا ہی نہیں تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے، ایسا طرزِ عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی پر بینچز بنتے رہے؟ آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ بینچ قانونی ہے، یہ فیصلہ ہو جائے اس کے بعد ہی میں دلائل دے سکتا ہوں۔
عدالت نے بینچ پر اعتراض مسترد کر دیا
عدالت کی جانب سے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے علی ظفر کا اعتراض مسترد کر دیا گیا، ججز نے مشاورت کے بعد فیصلہ سنا دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا فیصلہ سنا دیں تو ہم نے سنا دیا، ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے میمبرز بینچ کا حصہ ہیں، وہ خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟
کیا فیصلہ سنانے والے جج کا نظرِثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار حلف کی خلاف ورزی نہیں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے میمبرز کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں، آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں نظرِثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر سکتا ہوں؟ کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟
لوگوں کو یہاں مرضی کے بینچز کی عادت ہے مگر وہ زمانے چلے گئے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں تو فیصلوں کو رجسٹرار سے ختم کروایا جاتا رہا، میں نے بینچ میں انھی ججز کو شامل کرنے کی کوشش کی، کسی کو مجبور نہیں کر سکتا، فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں لیکن لوگوں کو یہاں مرضی کے بینچز کی عادت ہے تاہم وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آ چکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہو گی۔
علی طفر نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے سر۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اچھی بات نہ کہیں، پہلے سابقہ کاموں کا کفارہ کریں، اب ہم جو کرتے ہیں بتا دیتے ہیں، سابقہ دور واپس نہیں آنے دیں گے، کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟
علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، نظرِثانی اپیل میں فیصلے لکھنے والے جج کی موجودگی لازم ہے، اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، پہلے بیٹھ کر اپنے رولز بنا لیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے سب نظرِثانی کے مقدمات لگا دیئے ہیں، ڈیڑھ بج چکا، آپ نے میرٹ پر ایک بات نہیں کی، سادہ سے آئینی سوالات ہیں ان کا جواب دیں، کیا 63 اے فیصلے کی وجہ سے عدم اعتماد سمیت کئی آئینی شقیں غیر فعال ہو گئیں؟
علی ظفر نے جواب میں کہا ٹھیک ہے مگر فیصلہ لکھنے والے جج کے بغیر یہ بینچ کیس نہیں سن سکتا، فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے وہ جج موجود ہی نہیں، اس ادارے کیلئے کچھ کریں۔
بیرسٹر علی ظفر کو عمران خان نے ملاقات کی اجازت
چیف جسٹس نے کہا آپ دلائل نہیں دے رہے، میرٹ پر دلائل دیں۔
علی ظفر نے کہا کہ اگر آپ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ فیصلہ لکھنے والے جج کو نہیں بٹھانا تو مجھے اپنے موکل سے ملنے دیں۔
سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کر لی اور علی ظفر کی عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو علی ظفر کی عمران خان سے ملاقات کروانے کے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں آج رات تک ملاقات ہو جائے۔
سماعت کل تک ملتوی
بعدازاں عدالت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرِثانی اپیلز پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔
گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ
آج کی سماعت سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ نظرِثانی درخواست 3 دن کی تاخیر سے دائر ہوئی جس پر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا، درخواست گزار کے مطابق تفصیلی فیصلہ موجود نہ ہونے پر نظرِثانی تاخیر سے دائر ہوئی، رجسڑار آفس معلوم کرے تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا۔
تحریری حکم نامہ کے مطابق جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی، دوبارہ درخواست پر جسٹس منیب نے دوسرا خط لکھا، رجسڑار معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا، ججز کمیٹی کی دوبارہ میٹنگ بلا کر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایاگیا، دورانِ سماعت کچھ سوالات سامنے ائے، سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ہے، فریقین برطانیہ، امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے اگاہ کریں، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے ہماری حاضری لگا لیں۔
پہلی سماعت کا تحریری حکم نامہ
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرِثانی کیس کی پہلی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کردہ حکم نامہ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت 5 رکنی بینچ نے کی تھی، بینچ میں اُس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل تھے۔
صدارتی ریفرنس کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا اور اکثریتی فیصلے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن کی حمایت حاصل تھی جبکہ اقلیتی ججز جسٹس مظہر عالم خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ تحریر کیے تھے۔
تحریری حکم نامہ کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے 23 جون 2022 کو نظرِثانی اپیل دائر کی تھی، جسٹس منیب اختر کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا گیا ہے جس میں بینچ میں شمولیت سے معذرت کی گئی ہے، آج جسٹس منیب اختر نے اپنے دیگر مقدمات کی سماعت معمول کے مطابق کی اور چائے خانہ میں بھی میرے اور دیگر ججز کے ساتھ تھے۔
تحریری حکم نامہ میں ہدایت کی گئی کہ رجسٹرار حکم نامہ کی کاپی جسٹس منیب اختر کے سامنے رکھیں اور جسٹس منیب سے بینچ کا حصہ بننے کی درخواست کریں اور جسٹس منیب انکار کریں تو ججز کمیٹی نیا جج بنچ میں شامل کرے گی۔