اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے 564 افراد گرفتار ہوئے ہیں جن میں 120 افغانی شہری اور خیبرپختونخوا کے 11 پولیس اہلکار شامل ہیں، پولیس نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پتھراؤ کا مقابلہ کیا، حملہ کرنے والوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، شرپسندوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہو گی۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ڈی چوک اسلام آباد میں آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے احتجاج کرنے والے 564 افراد کو گرفتار کیا ہے، گرفتار ہونے والے افراد میں 120 افغانی شہری بھی شامل ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے 11 پولیس اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
محسن نقوی نے بتایا کہ اسلام آباد میں گرفتار ہونے والے خیبرپختونخوا کے پولیس اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے جن کے پاس آنسو گیس کے شیلز، ماسک اور ربڑ کی گولیاں بھی برآمد ہوئی ہیں، مظاہرین میں تربیت یافتہ عسکریت پسند افراد بھی تھے جنہوں نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے آنسو گیس کے شیلز استعمال کیے اور پولیس پر حملے کیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پولیس کو احتجاجی مظاہرے میں استعمال کیا گیا ہے، ہم اس معاملہ کی انکوائری کر کے وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا کو رپورٹ جمع کرائیں گے، اسلام آباد میں 2 دنوں سے لاش کی حسرت کرنے والوں سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں، شرپسندوں کے ارمان پورے نہ ہو سکے.
وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے پتھراؤ سے اسلام آباد پولیس کے 31 اہلکار اور پنجاب پولیس کے 75 اہلکار زخمی ہوئے ہیں، پولیس پر فائرنگ کی گئی لیکن پولیس نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، ہمارے پولیس اہلکاروں نے پتھراؤ کا مقابلہ کیا، ابھی سینٹورس تک علاقہ کلیئر ہے، رات تک مکمل علاقہ کلیئر کر دیں گے، اسلام آباد کے شہری 2 دن سے اذیت کا شکار رہے، تکلیف پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام سے معذرت چاہتا ہوں۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ اسلام آباد پر اس دھاوے کے منصوبہ سازوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، ہم نے انتہائی تحمل کے ساتھ صورتحال کو کنٹرول کیا اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے فرائض بہترین انداز میں انجام دیئے، ہماری ترجیح تھی کہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں اسلام آباد میں دھاوا بولا گیا، مظاہرین کا مقصد ڈی چوک پہنچ کر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس تک دھرنا دینا تھا، شرپسندی میں ملوث تمام عناصر کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہو گی اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے والوں سے کسی بھی طرح کی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔