کراچی (تھرسڈے ٹائمز) — چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میثاقِ جمہوریت کے تحت کچھ معاملات رہ گئے، کیا ہم ان کو بھول جائیں؟ کیا جیل میں بیٹھے شخص کی وجہ سے اپنے قائد کا وعدہ بھول جائیں؟ اگر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تو ملک میں برابری کی نمائندگی کو یقینی بنانا ہو گا، جو لوگ مجھے کہہ رہے ہیں کہ پیچھے ہٹ جاؤ تو میں انہیں کہتا ہوں کہ تم پیچھے ہٹ جاؤ، اگر یہ اب نہیں ہو گا تو کب ہو گا؟
بےنظیر ہاری کارڈ کے اجراء کی تقریب کراچی میں منعقد ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب شہید محترمہ بےنظیر بھٹو پاکستان آئیں تو وہ میثاقِ جمہوریت پر عملدرآمد کیلئے پُرعزم تھیں، وہ اپنے اس مشن کی جدوجہد میں شہید ہو گئیں، میثاقِ جمہوریت کے تحت کچھ معاملات رہ گئے، کیا ہم ان کو بھول جائیں؟ کیا جیل میں بیٹھے شخص کی وجہ سے اپنے قائد کا وعدہ بھول جائیں؟ پاکستان پیپلز پارٹی اس پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میں سندھ کے عوام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ پاکستان کے عدل و انصاف کے نظام سے مطمئن ہیں؟ اگر آپ کو یہ نظام ٹھیک لگتا ہے تو اسے ایسے ہی چلنے دیتے ہیں لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ انصاف کا نظام ٹوٹا ہوا ہے اور یہ ناانصافی کا نظام ہے تو پھر میثاقِ جمہوریت کے تحت اس نظام میں کمزوریوں کا حل بھی موجود ہے، اگر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تو ملک میں برابری کی نمائندگی کو یقینی بنانا ہو گا، ایک مخصوص آئینی عدالت کا قیام بھی بہتری لانے کیلئے ضروری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کے تمام صوبوں سے برابری کی بنیاد پر منصفین بیٹھیں گے تو ہمارے آئینی مسائل کا حل نکلے گا، ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو گا، اگر وفاق کا کسی صوبے سے جھگڑا ہو یا اس صوبے کو کوئی مسائل درپیش ہوں تو پھر ایک ایسا فورم ہونا چاہیے جہاں ان مسائل کو حل کیا جا سکے، ہمارے دو مطالبات ہیں کہ ایک آئینی عدالت کا قیام اور دوسرا ججز کی تقرری کیلئے طریقہ کار ہے، یہ سب کچھ میثاقِ جمہوریت میں طے کیا گیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو لوگ مجھے کہہ رہے ہیں کہ پیچھے ہٹ جاؤ تو میں انہیں کہتا ہوں کہ تم پیچھے ہٹ جاؤ، اس بات کا کیا مطلب ہے کہ آئینی ترمیم کیلئے وقت صحیح نہیں پے؟ اگر یہ اب نہیں ہو گا تو کب ہو گا؟ جب قائدِ عوام کو شہید کیا گیا اور ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کو آئین میں ترمیم کرنے اور وفاقی شرعی عدالت قائم کرنے کی اجازت دی گئی تب کسی کو فکر لاحق نہیں ہوئی، مجھے جتنا اس عدالتی نظام کا پتہ ہے اتنا کسی اور سیاستدان کو معلوم نہیں ہے۔
سابق وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ جس عدالت کی ذمہ داری ہمارے حقوق کا تحفظ کرنا اور حقوق کا دفاع کرنا ہے وہی عدالت ایک فوجی آمر کو اپنی مرضی کا آئین بنانے کی اجازت دیتی ہے، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک ایسا نظام شروع کیا جس سے عوام کو تو انصاف نہیں بلکہ صرف جج صاحبان کو ملا، ہمیں تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے، ہماری خواتین کو جیلوں میں بند کیا جاتا ہے، یہ ہے آپ کے انصاف کا مکمل نظام، آپ کہتے ہیں کہ ایسے ہی چلتا رہے تو میں کہتا ہوں کہ ایسے تو نہیں ہو سکتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی آئینی ترمیم کیلئے جو تجاویز دی ہیں وہ تمام شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ان وعدوں پر مبنی ہیں جو میثاقِ جمہوریت میں درج ہیں۔ ہم سب مل کر انصاف، عدالتی اصلاحات، آئینی ترمیم اور برابر کی نمائندگی کا مطالبہ کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں کیلئے ہدایات ہیں کہ وہ پروپیگنڈا پر کان نہ دھریں اور لوگوں کے پاس جا کر انہیں عدالتی اصلاحات سے متعلق آگاہی فراہم کریں، ںںں۔
انہوں نے کہا کہ کل ایک بار پھر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ملاقات کریں گے، جس طرح ہم نے اور جمعیت علمائے اسلام نے مل کر آئین دیا تھا اسی طرح ہم مل کر 26ویں آئینی ترمیم سے پاکستان میں انصاف کے نظام میں بہتری لائیں گے، ہماری جماعت ملک میں پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرتی ہے، خواتین کی مالی مدد کرنے پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو عالمی پذیرائی ملی ہے، ہم نے غریب عوام، کسانوں، خواتین کو حقوق فراہم کیے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہم بینظیر ہاری کارڈ کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام دنیا میں ایک مثال بن چکا ہے، شہید بی بی پاکستانی معیشت کو ایسے چلاتی تھیں کہ جس سے کسانوں کو فائدہ ہوتا تھا، اس زمانے میں بھی آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) ہوتا تھا اور تب بھی کہا جاتا تھا کہ پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے لیکن اس وقت شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے فیصلہ کیا کہ میں عوام کی منتخب وزیراعظم ہوں اور سارے بین الاقوامی ماہرین سے زیادہ میں جانتی ہوں، انہوں نے دلیرانہ فیصلہ لیا اور ملک کے کسانوں کے حق میں بات کی۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ یہاں کسانوں کا معاشی قتل کیا جاتا تھا لیکن پھر صدر آصف علی زرداری کے فیصلوں کی بدولت ایک سال میں زرعی انقلاب آ گیا، ہمارا کسان خوشحال ہو گیا اور ہماری معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی تھی، آج اگر ہم پاکستانی معیشت کا جائزہ لیں تو ہر طبقہ پریشان نظر آتا ہے اور اسے مشکلات کا سامنا ہے، منتخب نمائندوں کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آپ کے مسائل حل کریں اور اسی کام کیلئے عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے، آج پورے کا پورا نظام خطرے میں ہے۔
سابق وزیرِ خارجہ نے کہا کہ مافیاز، بڑے بڑے کاروباری طبقات، صنعت کاروں اور بین الاقوامی قوتوں کی پاکستان میں زرعی شعبہ ڈی ریگولیٹ کرنے کی سازش چل رہی ہے، ایک ایسے وقت میں جب موسمیاتی تبدیلی زندگی اور موت کا سوال بن چکی ہے اس سے زیادہ احمقانہ مشورہ نہیں آ سکتا کہ زرعی شعبے کو ڈی ریگولیٹ کر دیں، زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری ملکی ترقی کا واحد راستہ ہے، کھاد کی فیکٹریوں کو سبسڈی فوری بند کی جائے اور ان سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے کسانوں کو براہِ راست اربوں کی سبسڈی دی جائے۔