اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس ہونا پاکستان کیلئے اعزاز کی بات ہے، اس موقع پر احتجاج اور ہنگامہ آرائی پاکستان کے بین الاقوامی سطح پر تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش ہو گی، بھارتی وزیرِ خارجہ کا پاکستان آنا بہت اہم ہے، پی ٹی آئی کا نعرہ ’’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘ صرف ان لوگوں کیلئے ٹھیک ہے جنہوں نے اپنے دماغ بند کر لیے ہیں، پی ٹی آئی پاکستان پر امریکہ کی جانب سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے مگر کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایک نجی نیوز چینل پر سینئر جرنلسٹ ابصار عالم کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس ہونا پاکستان کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے، ایس سی او کانفرنس کے موقع پر اسلام آباد میں کسی بھی قسم کا احتجاج اور ہنگامہ آرائی پاکستان اور شنگھائی تعاون تنظیم کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش ہو گی۔
حسین حقانی نے کہا ہے کہ فی الحال پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں، دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے سفراء تک موجود نہیں ہیں،ایسے موقع پر بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر کا پاکستان آنا بہت اہم ہے جس سے آئندہ کیلئے دونوں ممالک کے مابین بات چیت کے دروازے کھل سکتے ہیں، اس کی مثال 1989 میں راجیو گاندھی کا سارک کانفرنس کیلئے پاکستان آنا تھا جس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے دروازے کھل گئے تھے۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ ایسے موقع پر اسلام آباد میں کسی بھی قسم کا احتجاج اور ہنگامہ آرائی ایک طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی طرح کی بات چیت کے دروازے مزید بند رکھنے کی کوشش ہو گی جبکہ ایسے موقع پر احتجاج شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے، بھارت کے اندر بیٹھے کچھ متشدد عناصر پاکستان کے اندرونی حالات کی بےچینی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے اپریل 2008 سے نومبر 2011 تک امریکہ میں سفیر تعینات رہنے والے حسین حقانی کا کہنا تھا کہ بھارت میں موجود ایسے متشدد عناصر چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان پر اندرونی دباؤ پیدا ہو تو ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی دباؤ میں بھی اضافہ کریں اور سفارتی سطح پر پاکستان کیلئے کچھ مسائل پیدا کر سکیں، بھارت کے اندر موجود ان عناصر کی جانب سے تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ذریعہ پاکستان پر بیرونی دباؤ بڑھانے کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بھی بیٹھتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ سے جنگ لڑ کر کوئی آزادی کی باتیں بھی کرنے لگتے ہیں، عمران خان کی جانب سے امریکہ کے سفارت کار کا نام لے کر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے ہمارے سفارت کار سے ایسا کہا، سفارتی سطح پر ایسی باتیں نہیں کی جاتی ہیں، عمران خان نے سفارتی سطح پر وہ باتیں کی ہیں جو تھڑے پر بیٹھ کر کی جاتی ہیں، ایسی باتوں سے بین الاقوامی سطح پر ممالک کے مابین تعلقات خراب ہوتے ہیں۔
حسین حقانی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی مجموعی سیاست کسی حکمتِ عملی کے بغیر چل رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ عمران خان غصے میں ہیں اور ان کے فالوورز اس غصے کو عمل میں لا کر انہیں خوش کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، احتجاج کیلئے کوئی حکمتِ عملی ہوتی ہے کہ میں دباؤ ڈالوں گا تو یہ نتیجہ نکلے گا لیکن پی ٹی آئی کے احتجاج میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی، پی ٹی آئی کی یہ حالت ہے کہ چند جذباتی نوجوان نکلتے ہیں اور ہَلاّ گُلاّ کر کے پھر واپس چلے جاتے۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ ایک صوبے کا وزیرِ اعلٰی بھی سرکاری وسائل اور سرکاری گاڑیاں استعمال کرتے ہوئے جلوس لے کر وفاق کی جانب چل پڑتا ہے، وہ ہنگامہ آرائی کرتا ہے اور کچھ ایسی ویڈیوز بنواتا ہے جو ٹک ٹاک، ٹویٹر، یوٹیوب اور انسٹاگرام پر استعمال کی جا سکیں، پھر اس کے بعد سب گھروں کو چلے جاتے ہیں، اس سب کے نتیجہ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی، عمران خان کو ان چیزوں پر غور کرنا ہو گا مگر غور کرنا اور حکمتِ عملی بنانا ان کی صلاحیتوں سے ماوراء ہے۔
سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا کہ میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیاست میں چند لمحوں کیلئے تو غصہ آ سکتا ہے لیکن جس کسی نے غصہ کو اپنے اوپر حاوی کر لیا اور غصہ کی بنیاد پر سیاست کرنے کی کوشش کی تو پھر اس کی سیاست کو اسی غصہ نے اڑا کر رکھ دیا، عمران خان یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ سیاست میں لڑنے جھگڑنے کے ساتھ ساتھ بات چیت بھی کرنا پڑتی ہے۔
حسین حقانی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا نعرہ ’’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘ ان لوگوں کیلئے ٹھیک ہے جنہوں نے اپنے دماغ بند کر لیے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کیلئے قرآن کریم میں ’’صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُـمْ لَا يَرْجِعُوْنَ‘‘ کی آیت موجود ہے، ان لوگوں نے کچھ سوچنا سمجھنا نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ سوچنے سمجھنے کی بجائے صرف ایک شخص سے محبت کرتے ہیں، پی ٹی آئی جو کچھ کر رہی ہے اس سے کسی پر کوئی دباؤ نہیں پڑ رہا بلکہ پی ٹی آئی خود بےنقاب ہو رہی ہے۔
حسین حقانی نے کہا کہ پی ٹی آئی (پاکستان تحریکِ انصاف) کوششیں کر رہی ہے کہ پاکستان پر امریکہ کی جانب سے کوئی دباؤ ڈالا جائے مگر ایسا کچھ نہیں ہو رہا، پی ٹی آئی نے چند ارکانِ امریکی کانگریس سے خط بھی لکھوا لیا اور چند دیگر لوگوں کو بھی چندہ فراہم کر کے ان سے بھی اپنی پسند کی بات کہلوائی مگر اس سے کہیں کوئی فرق نہیں پڑ رہا، اس سے پاکستان پر کوئی دباؤ پیدا نہیں کیا جا سکا۔
سابق سفیر حسین حقانی نے مزید کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین میثاقِ جمہوریت طے پایا، اگر پاکستان تحریکِ انصاف بھی اس میثاقِ جمہوریت میں شامل ہو جائے تو معاملات حل ہو جائیں گے اور پاکستان آگے بڑھے گا۔