ہزاروں مسائل جن پر لکھنے کو جی تو چاہتا ہے مگر اپنی محبتیں ایسا کرنے سے روکتی ہیں مگر یہ لازم ہے کہ اندھی محبت میں گرفتار ہو کر محبوب کو یہ حق نا دیا جائے کہ وہ میری ذات تک روند کر چلتا بنے بالخصوص ان خواہشات کو تو کم از کم پس دیوار نہیں کرنے دیا جا سکتا، جو خود اسی محبوب کی پیدا کردہ ہیں۔
یہ سیاستدان جو چکی پیستے ہیں یہ اس آرام اور سکون کی سزا ہے یہ جو اقتدار میں لیتے ہیں، عوام تو دونوں صورتوں میں پستی ہے ان کے اقتدار میں بھی اور ان کے احتجاج میں بھی۔ بہرحال امید ہر وقت قائم و دائم رہتی ہے کہ اس بار کچھ اچھا ہوگا
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ ملک پاکستان میں اس وقت جنگلی جمہوریت رائج ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ جنگل میں کسی قسم کا قانون نہیں ہوتا، اور پاکستان میں جس قسم کی جمہوریت اس وقت رائج ہے اسے جنگلی جمہوریت کہنا بےجا نہ ہوگا۔ کیونکہ اس وقت حالات یہ ہیں کہ آئین قانون تو ہے لیکن عملداری نہ ہونے کے برابر ہے، ایک ڈمی پرائم منسٹر کرسی پہ براجمان ہے، ڈمی اس لئے کہ اس پرائم منسٹر کی ڈوریاں کوئی اور ہلا رہا ہے، آپ نظر دوڑائیں تو آپکو معلوم پڑے گا کہ تقریبا ہر ادارے کا سربراہ یا تو ریٹائررڈ فوجی ہے یا حاضر سروس جرنیل ہے، اسٹیبلشمنٹ (بلیک میلرز) نے پاکستان کے نظام کو بہت مضبوطی سے جکڑ رکھا ہے، ایسے حالات میں 20 ستمبر 2020 کو اپوزیشن جماعتوں کا ایک الائنس بنا، جس نے عوامی احتجاج کا راستہ اپنایا اور پاکستان کے ہر بڑے شہر میں کافی کامیاب اور متاثرکن جلسے کئے، اپوزیشن کے قائدین نے بےباک تقاریر بھی کیں، پہلے جو باتیں صرف ڈرائنگ رومز کی حد تک تھیں، اب چوکوں، چوراہوں اور کسی حد تک مین سٹریم میڈیا تک آ چکی ہیں، یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سخت باتیں اب زبان زد عام ہو چکی ہیں، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں خاص طور پہ ن لیگ اور جے یو آئی نے بہت مشکل راستہ چنا ہے، اس راستے میں بہت سے امتحان ابھی بھی باقی ہیں، پی ڈی ایم کا اتحاد میں رہنا ہی انکی سب سے بڑی جیت ہوگی، ابھی بہت سے لیڈران اور کارکنان کی گرفتاریاں ہوں گی، میڈیا پہ بے نیاز الزامات لگائے جائیں گے، اتحاد توڑنے کی سر توڑ کوشش کی جائیگی، اپنی اپنی جماعت کے بیانئے کے فرق کو اجاگر کیا جائیگا، غرض یہ کہ پی ڈی ایم کو سخت ترین حالات سے گزرنا ہوگا، اگر پی ڈی ایم میں اتحاد قائم رہتا ہے (جس کی توقع کم ہے) تو جیت پکی ہے چاہے دیر سے ہی نتائج ملیں لیکن نتائج پی ڈی ایم کے حق میں ہی ہوں گے، جب سے پی ڈی ایم کا اتحاد بنا ہے شروع سے موقف سخت رکھنے کے بعد اب جنوری کے مہینے میں موسم کی مناسبت سے موقف ذرا ٹھنڈا ہو گیا ہے، لیکن شاید حکمت عملی تبدیل کی گئی ہے۔
اس وقت سوچنے کی بات ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ جس نظام کو توڑنے کی امیدیں پی ڈی ایم نے باندھی ہوئی ہیں اسے توڑنا بہت مشکل اور کٹھن ہے، کیونکہ نظام کو بہت بری طرح جکڑا جا چکا، ایسے میں سوائے ڈائیلاگ کے کوئی راستہ باقی نہیں بچتا، اور میرے نزدیک ڈائیلاگ ہی اس ملک کو بھنور سے نکال سکتا ہے، ڈائیلاگ ہمیشہ انہی سے ہوتا ہے جو طاقت میں ہو، اور طاقت میں کون ہے؟ یہ آپ سب جانتے ہیں۔ اور سب سے برا سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈائیلاگ کیوں کرے گی؟
اے جو لٹکے نے سولی اے لتھنے نہیں
راج بدلن گئے سورج چڑھن لین گے
اگر آئین پہ عملدرآمد آج سے شروع ہو جائے تو یہ حکومت چند دنوں میں گر سکتی ہے، آئین سے عملدرآمد سے مراد اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں اور حکومتی اتحادیوں کی پشت پناہی چھوڑ دے تو راستہ نکل سکتا ہے، اور معاملات نئے الیکشن کی طرف جاسکتے ہیں ، صرف اور صرف نئے اور صاف شفاف الیکشن ہی اس ملک کو اس بھنور سے نکال سکتے ہیں۔
دوسری صورت میں جس کے چانسز زیادہ ہیں دھیرے دھیرے اپوزیشن کو گولیاں دے کر پانچ سال پورے کئے جائیں گے اور اگلے الیکشن میں مائنس اولڈ فیسز ہائبرڈ جمہوریت 1988 والی جو ایک بار پھر تمغہ جمہوریت کا اعلان کریگی۔ عوام کوہلو کے بیل کی مانند آنکھوں پر پٹی بندھی دائروں میں گھومتی رہیگی۔ بلیک میلرز اور بلیک میل ہونے والے پھر سےمل بانٹ کھائینگے۔ راستہ بہت کٹھن اور حالات گھمبیر ہیں، بلیک میلرز کبھی بھی آسانی سے آپکے لئے راستہ نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ جس دن اس ملک میں حقیقی جمہوریت آ گئی اس دن بلیک میلرز کرپشن نہیں کر سکیں گے انکا دانہ پانی بند ہو جائیگا،
اپوزیشن کو چاہئے کہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر ڈٹی رہے، تو ہی نتائج انکے حق میں جا سکتے ہیں۔
The contributor, Ghulam Mustafa, can be reached @gm_uaegm.