گزشتہ اتوار اپوزیشن لیڈر و صدر پاکستان مسلم لیگ ن میاں محمد شہباز شریف صاحب کا جیو نیوز پر سنئیر صحافی ”سلیم صافی“ کے ساتھ پروگرام دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ پروگرام اس وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ہوگیا کیونکہ سوشل میڈیا پر اس انٹرویو کی تشہیر مسلسل جاری تھی اور ایک عام آدمی کے ساتھ ساتھ ن لیگی کارکنان اور صحافیوں کی نظریں ٹی وی سکرینوں پر جمی ہوئی تھیں۔
صدر صاحب نے اپنے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی کا ذکر کیا اور ساتھ ساتھ اس ملک میں مہنگائی، بیروزگاری کے خلاف لب کشائی فرمائی لیکن چند سوالات جو ہر ن لیگی ورکر کے ذہن میں گھومتے ہیں کہ صدر محترم مفاہمت کے رستے پر کیوں چل پڑے ہیں؟ کیا مشکل وقت میں ن لیگی کارکنان نے صدر محترم کا ساتھ نہیں دیا؟ کیا ن لیگی کارکنان صدر محترم کی ہر پیشی پر انکے ساتھ شانہ بشانہ نہیں کھڑے ہوئے؟ کیا ن لیگی کارکنان نے اپنی قیادت کے لیے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ہاتھوں اپنے جسم چھلنی نہیں کروائے؟ کیا ن لیگی کارکنان نے اپنی قیادت کے بیانیے کو کندھوں پہ اٹھا کر ظلم و ستم برداشت نہیں کیے؟ لیکن اس کے باوجود صدر محترم کو یہ بات کیوں کہنا پڑی کہ میں متعدد بار میاں نواز شریف کے ساتھ جیلوں میں گیا، ہتھکڑیاں پہنی، مشکل وقت برداشت کیا اور اس کے بدلے میں مجھے کیا ملا؟
جناب صدر! آپ کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی وجہ سے پنجاب کے لوگوں نے آپ کو تین دفعہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز کیا، آپ نے اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو پاکستانی قوم کے سامنے رکھا اور پاکستانی قوم نے آپ کی باتوں پہ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تین دفعہ ”تخت لاہور“ پر بٹھایا۔ جناب صدر! یہ سوال آپ کا نہیں بنتا بلکہ یہ سوال ایک ن لیگی ورکر کا آپ سے بنتا ہے کہ آپ تین دفعہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہے، آپ نے کتنی دفعہ ن لیگی کارکنان کے مسائل حل کیے؟ کتنی دفعہ آپ نے انکو اپنے گھر پہ بلا کر انکے آندھے اعتماد کا شکریہ ادا کیا؟ کتنی دفعہ آپ نے مشکل میں پھنسے ن لیگی کارکنان کی مالی امداد کی؟ پورے پنجاب میں لگا تار دس سال آپ کا اور آپ کے بیٹے حمزہ شہباز کا دب دبا رہا، پورے پنجاب کی بیوروکریسی آپکی لگائی ہوئی تھی، دس سال لگاتار آپ نے بلا خوف و خطر کھل کر کھیلا، کوئی بھی افسر آپ کے یا حمزہ شہباز کی اجازت کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتا تھا، میاں نواز شریف صاحب نے پنجاب کے اندر آپ کی حکومت کو تنگ نہیں کیا لیکن پھر بھی آپ مسلم لیگ ن کو پورے پنجاب میں مستحکم نہ کر سکے، اس کا سب سے بڑا نقصان اس وقت سامنے آیا جب جنوبی پنجاب میں کوئی بھی امیدوار آپ کا ٹکٹ لینے کے لیے راضی نہیں تھا اور آپ کی ہی لگائی گئی بیوروکریسی آپ کی پارٹی کے امیدواران کو دھمکا رہی تھی، تشدد کا نشانہ بنا رہی تھی اور جیلوں میں گھسیٹ کر قید کر رہی تھی لیکن اس وقت کوئی بھی افسر آپ کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا، کیا اس وقت آپ نے ایک لمحے کے لیے یہ سوچا کہ جو دس سال تک ہمارے آگے سر نہ اٹھا سکے وہ آج کیسے ہمارے آگے بہادر بن گئے اور ہمارے ہی خلاف کاروائیاں کرنے پر چل پڑے، اس وقت بھی آپ کے ساتھ ن لیگ کے کارکنان کھڑے ہوئے تھے اور بیوروکریسی نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
جناب صدر! آپ نے اپنے انٹرویو میں فرمایا کہ ملک میں مہنگائی، بیروزگاری عروج پر پہنچ چکی ہے، عام آدمی کی زندگی اجیرن بن گئی ہے، آپ نے کتنی دفعہ بطور اپوزیشن لیڈر احتجاج ریکارڈ کروایا؟ کتنی دفعہ مہنگائی کے خلاف جلسے جلوس و دھرنے دیے؟ کتنی دفعہ آپ نے لوڈشیڈنگ کے خلاف سڑکیں بلاک کیں؟ یقیناً آپ کے پاس اس کا جواب ”ناں“ میں ہوگا اور آپ نے عمران خان کو ایک کھلا پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے من پسند فیصلے پاکستانی قوم پر زبردستی مسلط کرواتا ہے۔جناب صدر! آپ نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے الله تعالٰی کی توفیق سے پنجاب میں بےشمار ترقیاتی کام کروائے لیکن پھر بھی مسلم لیگ ن کو ہروایا گیا۔ آپ کو یہاں پر ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب قوم اپنے نظریے کی حفاظت کرنے کے لیے نکل پڑے تو اس کے اگے آپ کے ترقیاتی کام کوئی اہمیت نہیں رکھتے، وہ قوم اپنے نظریے کی حفاظت کی خاطر درخت کے پتے کھانا پسند کر لے گی لیکن نظریے کو کچلنے والوں کے ساتھ ہر گز بیٹھنا پسند نہیں کرے گی، اس کا عملی مظاہرہ آپ نے شہید جمہوریت سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کے جسدِ خاکی کو دیکھ کر کر لیا ہوگا کہ انہوں نے اپنے علاقے میں ایک دھیلے کا بھی کام نہیں کروایا لیکن جب وہ شہید ہوئے تو پورے بلوچستان کے لوگوں نے انکے جسد خاکی پر گل پاشی کی اور بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ عثمان کاکڑ کا ہوا، اسکی ایک ہی وجہ تھی کہ وہ سویلین بالادستی کے نظریے کے اوپر قائم تھے۔
جناب صدر! آپ نے انٹرویو میں کہا کہ عمران خان نے پاک فوج کے خلاف کئی مقامات پر نازیبا زبان کی لیکن ن لیگی کارکنان آپ سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے جلسے جلوسوں میں عمران خان کے فوج مخالف بیانات کو بڑی بڑی سکرینیں لگا کر قوم کے سامنے پیش کیا؟جناب صدر! آپ نے رہائی کے بعد اپنے چند چیدہ چیدہ عہدیداروں کے گھر جا کر ان کا شکریہ ادا کیا لیکن جو سینکڑوں کارکنان آپ کے لیے سڑکوں پر خوار ہوتے رہے وہ آپ کی راہ تکتے رہ گئے لیکن آپ نے ان کے گھر جانا تو دور کی بات آپ نے ان کا شکریہ ادا کرنا مناسب نہ سمجھا۔
جناب صدر! ہم نے سوچا تھا کہ آپ ووٹ کی عزت کی بات کریں گے، ووٹ چوروں کو سزائیں دینے کی بات کریں گے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف استعمال ہونے والے مہروں کو سزائیں دینے کی بات کریں گے، عاصم سلیم باجوہ سے ”پاپا جونز“ پیزے کی رسیدیں مانگے گئیں، جج ارشد ملک کے کیے گئے فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کی بات کریں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہ ہوسکا جسکی وجہ سے کارکنان آپ سے بہت افسردہ ہیں۔
جناب صدر! مفاہمت کا فارمولا صرف اس وقت ہی کامیاب ہوسکتا ہے جب آپ حکومت میں ہوں، جب ادارے آپ کے ساتھ مفاہمت کرنے کے لیے تیار نہیں تو آپ کو مزاحمتی سیاست کرنے میں کردار ادا کرنا چاہئیے تاکہ کارکنان کے دلوں میں آپکا کھویا ہوا مقام دوبارہ بحال ہو سکے اور تمام کارکنان آپکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان سیلیکٹڈ مہروں کے خلاف میدان عمل میں اتر آئیں۔
جناب صدر! یہی موقع ہے ہم سب کے لیے کہ ہم ووٹ کی عزت کے لیے ڈٹ جائیں، سول بالادستی کے لیے ڈٹ جائیں، آئین و قانون کے عملدرآمد کے لیے ڈٹ جائیں، یہ الله تعالٰی کا خاص کرم ہے ن لیگ پر کہ وہ ن لیگی کارکنان سے ووٹ کی عزت جیسا عظیم فریضہ ادا کروا رہا ہے۔ اگر آج ہم اپنی پاکستانی قوم کی آواز نہ بنے، انکی رائے کا احترام نہ کریں، انکی رائے پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کریں تو تاریخ ہمیں ایوب خان و یحییٰ خان کے انجام کی طرح کبھی معاف نہیں کرے گی۔
The contributor, Mian Mujeeb-ur-Rehman, is a chemical engineer who doubles as a columnist, having conducted research and crafted blogs for the past several years as a personality for various newspapers and websites throughout Pakistan.
Reach out to him @mujeebtalks.