موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے پاس دو آپشن ہیں مزاحمتی سیاست یا مفاہمتی سیایست۔
حقیقی مزاحمتی سیاست تب ممکن ہوسکے گی جب میاں نواز شریف پاکستان آئینگے اگر وہ پاکستان آتے ہیں تو خطرہ ہے کہ وہ گرفتار ہو کر جیل چلے جائیں گے تو پھر کیا مزاحمتی بیانیہ اکیلی مریم نواز آگے لیکر چل سکتی ہیں؟ سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں تو اس حد تک تو شاید یہ ممکن نظر آتا ہے البتہ عملی طور پر ایسا ہونا آسان نہیں ہوگا۔
مزاحمتی سیاست کیلئے پہلے جماعت کو منظم کرنا ہوگا جمہوری اقدار کے تحت تنظیم سازی کرنا ہوگی اور اسے فعال بنانا ہوگا غیر فعال شدہ تنظیم کے ساتھ مزاحمتی سیاست کیسے ہوسکتی ہے جسکی مثال گرفتاریوں، پیشیوں، انتقامی کارروائیوں وغیرہ کے وقت سامنے آچکی ہے جب آپ گرفتاری دینے آتے ہیں تو آپ کے ساتھ یکجہتی کیلئے پچاس ہزار افراد سڑکوں پر نہیں نکلتے جبکہ ٹھیک تیرہ دن بعد آپ کو سوا کروڑ ووٹ پڑ جاتے ہیں۔
مزاحمتی سیاست دنیا میں کہیں بھی ہوئی ہے تو پہلے وہاں تنظیمیں فعال اور منظم ہوئی ہیں، ترکی کی تازہ مثال ہے کہ طیب اردگان نے بیس سال لگا کر کام کیا اور اپنی جماعت کی تنظیموں کو فعال بنایا، یہی بنیادی وجہ تھی کہ وہاں انکے خلاف سازش کو انکے فعال اراکین، ووٹرز عوام نے ملکر ناکام بنا دیا تھا۔
مزاحمتی سیاست کرنا ہے تو پہلے اپنے حصے کا ہوم ورک کرنا لازم ہے اگر نہیں کرینگے تو نتائج پہلے سے مختلف نہ ہونگے بلکہ مزید مشکلات کھڑی ہو جائیں گی اور انکی ذمہ داری سے جماعت خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکے گی۔
جماعت میں ایسا فعال نظام موجود ہونا چاہیے جس میں ایک کارکن محنت کر کے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر جماعت کے کسی اہم عہدے پر فائز ہو سکے۔
رہی بات ووٹ کو عزت دو بیانیہ کی تو یہ عزت جماعتی سطح پر رہنماؤں، اراکین پارلیمنٹ سمیت عام کارکنان کو بھی دینا ہو گی بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات وزرا اور اراکین پارلیمنٹ سے لیکر بلدیاتی نمائندوں کو واپس تفویض کرنا ہونگے۔
The contributor, Maria Choudhary, is a BBA student with a keen interest in socio-economic affairs.
Reach out to her here.