اگر ٓاپ بھی بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحریر ای میل کریں — views@thursdaytimes.com
20 اگست 2021 کے روز سپریم کورٹ کے بینچ نمبر 2 میں جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ معمول کے مقدمات کی سماعت کر رہا تھا۔ بینچ میں دوسرے معزز جج جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے
معمول کے مقدمات کی سماعت کے بعد جب معزز ججز عدالت برخاست کر کے نشستوں سے اٹھنے لگے تو کمرہ عدالت میں موجود جیو کے رپورٹرعبدالقیوم صدیقی روسٹرم پر آ گئے اور ججز سے بات کرنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر عبدالقیوم صدیقی نے بینچ کو ایک تحریری درخواست پیش کی جس میں صحافیوں اپنے فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے مشکلات کا ذکر تھا۔ جس میں صحافیوں کے اغوا’ مختلف واقعات میں ان پر ہونے والے تشدد اور قاتلانہ حملوں اور ایف آئی اے کی جانب سے آئے روز مختلف انکوائریوں کے سلسلے میں طلبی کا ذکر کیا گیا تھا
عبدالقیوم صدیقی نے عدالت سے درخواست کی کہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے اس لیے آئین کے آرٹیکل (3) 184 کے تحت نوٹس لیکر کارروائی کی جائے۔ معزز ججز نے عبدالقیوم صدیقی سے چند سوالات کیے اور جب یہ اطمینان کر لیا کہ معاملہ فوری نوعیت کا اور آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے تحفظ کا ہے توعدالت نے درخواست باقاعدہ دائر کرنے کی ہدایت کی جس پر صحفی عامر میر اور عمران شفقت نے درخواست بطور پٹیشنرآٹیکل کے تحت دائر کردی اور عدالت نے معاملے کا آرٹیکل (3)184 کے تحت نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل’ چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز اور ڈی جی ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ تاریخ سماعت 26 اگست مقرر کر دی اور اپنے حکم میں لکھوا دیا کہ کیس اسی رو رکنی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے
اگلے ہی روز یعنی 21 اگست کو ایک سپلیمنٹری کاز لسٹ جاری کی گئی جس کے مطابق قائمقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔ بینچ میں شامل دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن’ جسٹس منیب اختر’ جسٹس قاضی محمد امین اور چند روز قبل سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے
بتایا گیا کہ لارجر بینچ جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کی طرف سے سوموٹو اختیار استعمال کرنے کے حوالے سے معاملے کو دیکھے گا۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ لارجر میں جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل کو شامل نہیں کیا گیا حالانکہ معاملے کا نوٹس انہوں نے لیا تھا
لارجر بینچ نے کیس کی پہلی سماعت 23 اگست کو کی اور مختصر سماعت کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے 20 اگست کے حکم پر عملدرآمد روک دیا۔
لارجر بینچ نے اٹارنی جنرل’ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ تاریخ سماعت 26 اگست مقرر کر دی۔
اس صورتحال میں جسٹس فائز عیسیٰ نے 24 اگست کو پانچ رکنی لارجر بینچ کے نام 21 صفحات پر مشتمل ایک خط لکھ اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ قارئین کہ دلچسپی کیلیے ہم اس خط کے چیدہ چیدہ نکات یہاں بیان کر رہے ہیں
جسٹس قاضی فائیز عیسی نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں تووٹس ایپ میسج پربھی نوٹس لیا گیا جس پر جسٹس ثاقب نثار’جسٹس عمرعطا بندیال اورجسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل بینچ نے ٹیکس وصولی روک دی بعد میں یہ کہہ کرخارج کر دیا گیا کہ یہ معاملہ آرٹیکل (3)184 کے تحت نہیں آتا۔ٹیکس وصولی روکنے سےملکی خزانے کو 100 ارب کانقصان ہوا
قاضی فائیز عیسی مزید لکھتے ہیں کہ ریکوڈک کیس میں بھی آرٹیکل (3)184 کے لوازمات کا خیال نہیں رکھا گیا۔اس کیس میں جسٹس افتخار محمد چودھری’جسٹس گلزار احمد اورجسٹس عظمت سعید نے فیصلہ دیا۔ فیصلے سے متاثرہ لوگ کیخلاف عالمی ثالثی میں چلے گئے اور پاکستان کیخلاف 6 ارب 40 کروڑ ڈالر ادا کرنے کا فیصلہ آیا۔
جسٹس قاضی فائیز عیسی کیمطابق جس کیس میں جسٹس مندوخیل اور مجھ پر مشتمل بینچ نے کارروائی کی اس کے حکم میں ہم نے نہ صرف آرٹیکل (3)184 کے لوازمات کا ذکر کیا بلکہ ان بنیادی حقوق کا بھی لکھا جن کی خلاف ورزی ہوئی۔ اس کے باوجود “مانیٹرنگ بینچ” کا اس حکم پر عملدرآمد روکنا انتہائی حیران کن تھا۔
خط میں مزید لکھا ہے کہ مانیٹرنگ بینچ کے فیصلے میں کئی غلط فہمیاں موجود ہیں۔ ایک یہ کہ دو رکنی بینچ نے سوموٹو نوٹس لیا جبکہ ہم نے درخواست پر کارروائی آرٹیکل (3)184 کے تحت کی تھی۔ مانیٹرنگ بینچ نے اپنے حکم میں لفظ “سوموٹو” 6 دفعہ استعمال کیا جبکہ آئین میں ایک دفعہ بھی اس کا ذکر نہیں۔
جسٹس قاضی فائیز عیسی کہتے ہیں کہ آئین میں عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ رکھا گیا اسی لیے عدلیہ کے ان ملازمین کو واپس بلا لیا گیا جو دوسرے اداروں میں ڈیپوٹیشن پر کام کر رہے تھے۔ لیکن انتظامیہ کے افسروں کو اب بھی سپریم کورٹ میں رجسٹرار لگایا جاتا ہے۔ موجودہ رجسٹرار پہلے وزیراعظم ہاؤس میں تعینات تھا۔
قاضی فائیز عیسی کیمطابق حکومت سے مستعار لیے ہوئے رجسٹرار اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ جن مقدمات میں حکومت کی دلچسپی ہوتی ہے وہ جلد سماعت کیلیے مقرر کرتے ہیں جبکہ جن مقدمات میں دلچسپی نہیں ہوتی ان میں یا تو تاخیر کی جاتی ہے یا انہیں سماعت کیلیے مقرر ہی نہیں کیا جاتا۔
جسٹس قاضی فائیز عیسی کہتے ہیں کہ آئین میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ کو دوسرے بینچ کی کارروائی کی نگرانی کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ اختیار پہلے رجسٹرار’ پھر قائمقام چیف جسٹس اور پھر لارجر بینچ نے استعمال کیا۔ اگر میرے معزز رفقاء نے کارروائی جاری رکھی تو یہ آئین سے تجاوز ہو گا۔
جسٹس قاضی فائیز عیسی لکھتے ہیں کہ ہم نے 20 اگست کے حکم میں وفاق اور صوبوں کے لاء افسروں کو نوٹس جاری کیا۔ کسی طرف سے کوئی اعتراض نہیں آیا لیکن رجسٹرار جو سرکاری ملازم ہے اور خود کو آئین کا ماہر سمجھتا ہے نے چھ صفحات کا نوٹ بنا کر قائمقام چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔
خط میں مزید لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک غیر معمولی پریکٹس جاری ہے کہ کاز لسٹ کی منظوری چیف جسٹس سے لی جاتی ہے جبکہ آئین اور سپریم کورٹ رولز میں ایسا کچھ نہیں۔ چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار ہے لیکن کونسا کیس کونسا جج سنے گا اس کا فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔
قاضی فائیز عیسی کیمطابق جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کے دوران لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کو جواب دیتے ہوئے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ سپریم کورٹ تقسیم ہے لیکن جائز عوامی تاثر کو ایسے بیانات سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مجھے اپنے فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
قاضی فائیز عیسی کہتے ہیں کہ جسٹس مقبول باقر اور مجھ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ارکان اسمبلی کو 50 کروڑ روپے مبینہ گرانٹ دینے کا نوٹس لیا تو “سرکاری ملازم رجسٹرار” نے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔
اچانک لارجز بینچ بناجس میں چیف جسٹس گلزار احمد’جسٹس مشیر عالم’جسٹس عمر عطا بندیال’جسٹس اعجاز الاحسن اور میں شامل تھالیکن جسٹس مقبول باقر کونکال دیا گیا۔کیس ختم کردیا گیالیکن چیف جسٹس نےایک غیر آئینی حکم کےذریعے مجھے وزیراعظم کیخلاف مقدمات کی سماعت سے روک دیا
آج لارجر بنچ معاملے کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسکو اب سنا دیا گیا ہے جس کیمطابق صحافیوں کی درخواست زیرسماعت سمجھی جائیگی لیکن بنچ بنانے کا فیصلہ چیف جسٹس کرینگے
The contributor, who goes by the pseudonym Lawliga, is a lawyer by profession. He can be found on Twitter here.
The views expressed by contributors are their own and are not those of The Thursday Times.