اسلام امن پسندی کا نام ہے، اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس میں بنی نوع انسانوں کی زندگیوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے گورے، کالے، امیر، غریب کے درمیان فرق کو ختم کرکے برابری کا اصول قائم کیا ہے۔ اسلام کے اندر مسلمانوں اور اقلیتوں کے حقوق کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے بنی نوع انسانوں کو حقوقاللہ اور حقوق العباد کے متعلق اہم معلومات سے آگاہ کیا ہے۔ وہ شخص قابل احترام ہے جس کو اللہ تعالٰی دین اسلام کی سمجھ عطاء کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ “یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے راہ راست پر لے آتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی سیدھے راہ پر لانے والا نہیں۔” (سورہ الزمر: 23) ایک اور مقام پر فرمایا کہ “جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جنہیں وہ گمراہ کر دے سو وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں” (سورہ الاعراف: 178)۔ اللہ تعالٰی نے اپنی وحی کے ذریعے ان تمام مسائل کا حل نبی آخر الزماں حضرت محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا دیا ہے جو بیشتر طور پر ہماری زندگیوں میں رونما ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ دوسرے مزاہب جو (ہمارے لیے قابل احترام ہیں) ان میں حقوق العباد کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا جتنی تفصیل اور باریک بینی کے ساتھ اسلام نے بیان کیا ہے اور دین اسلام نے ہی بنی نوع انسانوں پر حقوق العباد کی ادائیگی کو فرض قرار دے دیا ہے وگرنہ پوری دنیا میں اگر کوئی دوسرا ایسا مذہب ہوتا جو حقوق العباد کو وضع کرتا تو زمانہ جاہلیت میں کوئی بھی اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور نہ کرتا۔
یہ اسلام ہی ہے جس نے مرد اور عورت کو عزت عطاء فرمائی ہے۔ حضور اکرم صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر اسلام کی وحی نازل ہونے سے قبل دنیا میں تصوراتِ تہذیب اور آدابِ معاشرت مکمل طور پر مسخ ہو چکے تھے۔ ہر طرف ظلم و ستم، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ کفر و الحاد اور ظلم و جہالت کی تاریکی نے عالم انسانیت کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ عرب کی حالت دنیا کے دوسرے خطوں سے زیادہ گری ہوئی تھی۔ جاہلیت اور نفس پرستی کی وجہ سے ان کی اخلاقی حالت نہایت شرمناک تھی۔ شراب نوشی، عورتوں کا عریاں رقص، لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا، لاتعداد بیویاں رکھنا اور والد کے مرنے کے بعد دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ اپنی ماؤں کو بھی آپس میں بانٹ لینا اور بیویاں بنا کر رکھنا یا فروخت کر دینا عام تھا اور بعض قبیلوں کا پیشہ ہی چوری، لوٹ مار اور قتل و غارت گری تھا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے زمانہ جاہلیت کے ان تمام معاملات کا سختی سے مقابلہ کیا ہے اور دوسرے مزاہب کے مقابلے میں مرد و عورت کو زیادہ عزت بخشنے والا بھی اسلام ہے۔ آخر یہ اسلام ہم تک کیسے پہنچا؟ آخر اس اسلام نے دوسرے مزاہب کے مقابلے میں کیسے سبقت حاصل کر لی؟ اس کی اشاعت کے پیچھے حضور اکرم صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم اور انکے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، آئمہ کرام، اولیائے کرام اور بہت سی نیک شخصیات کی محنت ہے جس کے نتیجے میں اسلام آج ہماری زندگیوں میں موجود ہے۔ نبی کریم صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “اللہ تعالٰی جس شخص کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین اسلام کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے” (صحیح البخاری)۔ آج دین اسلام کو چاروں طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ ہم ان شر پسندوں کا مقابلہ کر سکیں جو اسلام کو نقصان پہنچانے کے در پر ہیں۔
آج ہر طرف اسلام کے خلاف سازشیں رچائی جا رہی ہیں اور یہ سازشیں اس وقت تک ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک ہم اپنی زندگیوں کو اسلام کی روشنی میں بسر کرنا شروع نہ کر دیں۔ آج اسلام دشمن عناصر “اساسلاموفوبیا” کا شکار ہوچکے ہیں اور وہ ہر وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نت نئی سازشوں کا جال بن رہے ہوتے ہیں۔ آج اگر ہم اسلام دشمن عناصر کے خفیہ ایجنڈے کو پرکھنے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کس طرح یہ قوتیں ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ لوگوں کی ذہنیت کو اسلام کے مخالف کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ فرانسیسی حکومت اور فرانس میں موجود اسلام دشمن لابی کئی دہائیوں سے گستاخانہ مواد شئیر کرکے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وہ ملک ہے جو ہر تھوڑے عرصے کے بعد حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے اور گستاخانہ خاکوں کی مدد سے مسلمانوں میں شدت پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ یہاں پر بہت سے لوگ ایک نقطہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کوئی ملک حضور اکرم صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرے تو ہمیں اس کے مقابلے میں کیسا رد عمل ظاہر کرنا چاہئیے؟ تو میرے نزدیک اس کا سب سے اہم حل یہی ہے کہ ہمیں ملکی و غیر ملکی میڈیا کے سامنے اپنے احتجاج کو ریکارڈ کروانا چاہئیے اور اس ملک کے خلاف برملا طور پر غم و غصّے کا اظہار کرنا چاہئیے اور اس سے بڑھ کر ہمیں اس ملک کی تیار کردہ اشیاء کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے تاکہ معاشی طور پر اس ملک کی بنیادیں کمزور ہوں اور وہ مسلمانوں کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے پر مجبور ہو جائے۔ جس طرح پوری اسلامی دنیا نے فرانسیسی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کیے رکھا ہے تو آپ اسکی معاشی حالت کو ذرا غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اب تک فرانس کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم امن پسندی کی بجائے شرپسندی والا راستہ اختیار کریں گے تو ہمیں خود ہی جانی نقصان برداشت کرنا پڑے گا جس طرح حالیہ دنوں میں ایک مذہبی جماعت اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ ہوا تھا جس میں نقصان خود مسلمانوں کو ہی ہوا کیونکہ مرنے والے بھی مسلمان اور مارنے والے بھی مسلمان تھے لیکن جو اسلام دشمن قوتیں تھیں وہ یہ سارے مناظر دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں کہ ہم نے کامیاب چال چل کر مسلمانوں کو آپس میں گتھم گتھا کروا دیا۔ اگر ہم نے امن پسندی کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑا ہوتا تو سیالکوٹ میں کبھی بھی سری لنکن مینیجر کے ساتھ رونما ہونے والا واقعہ پیش نہ آتا کیونکہ اسلام دشمن عناصر پوری امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ اس طرح کے واقعات کا سہارا لے کر مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں زہر اگلتے ہیں اور اسلام کو شر پسندی کا دین ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسلاموفوبیا کے شکار لوگوں کے ارمانوں کے اوپر اس وقت پانی پھر گیا جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے حضرت محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں کی جانے والی گستاخی کو مذہبی آزادی کے خلاف قرار دے دیا اور کہا کہ شان رسالت صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی لوگوں کو ناراض کرنے اور اشتعال دلانے کا باعث بنتی ہے اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی آزادی اظہار رائے نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شان رسالت صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہے۔ انہوں نے متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو پر حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی حرکتیں انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس بیان کے بعد فرانس سمیت دوسرے ممالک نے روسی صدر کے خلاف غم و غصّے کا اظہار کیا اور الزام دھر دیا کہ ولادیمیر پوٹن مسلمانوں کے جذبات کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی طور پر کسی غیر مسلم سربراہ کا اسلاموفوبیا کے خلاف دیا جانے والا بیان قابل ذکر ہے اور مسلم دنیا کے رہنماؤں نے اس اہم بیان پر روسی صدر کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ بہرحال پاکستان کی جانب سے اسلاموفوبیا کے خلاف کی گئی مشترکہ کاوشیں رنگ لے آئیں اور یہ کاوشیں اسلام دشمن عناصر کے اوپر بجلی بن کر گر پڑی ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو دین اسلام پر صحیح معنوں میں چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
آمین۔
The contributor, Mian Mujeeb-ur-Rehman, is a chemical engineer who doubles as a columnist, having conducted research and crafted blogs for the past several years as a personality for various newspapers and websites throughout Pakistan.
Reach out to him @mujeebtalks.