دانش کے ساتھ پیش آنے والے ہولناک واقعے سے آپ بخوبی واقف ہوں گے اور شہر اقتدار اسلام آباد میں واقع ایک مساج سنٹر پر چھاپہ مار کر حساس ادارے کے نمائندے کو برہنہ حالت میں گرفتار کرنے والے اسلام آباد پولیس کے ایک آفیسر کو غداری جیسے تمغے سے نوازا گیا، اس واقعے سے بھی آپ ضرور واقف ہوں گے۔ آج میری کوشش ہوگی کہ میں آپ کو ان تمام مراحل کے بارے میں مختصر طور پر آگاہ کروں جس کی وجہ سے پاک فوج کا ادارہ نااہل، کرپٹ اور کریک دماغ کے حامل افراد کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔
ایک وقت تھا جب پاک فوج کا سپاہی بارڈر پر پہرہ دیتا تھا تو اس کے پیچھے سینکڑوں افراد کی دعائیں ہوتی تھیں جو اس کے جذبے کو تقویت بخشتی رہتی تھیں اور ایک یہ وقت ہے کہ کچھ نااہل، کرپٹ اور ریٹائرڈ لوگوں نے اپنے من کی تسکین کے لیے فوج اور عوام کو آمنے سامنے کر دیا ہے۔ یقیناً وہ ریٹائرڈ لوگ دماغ سے عاری ہوتے ہیں اور دشمن کے خفیہ ایجنڈے پر عمل پیراں ہو کر پاک فوج اور عوام کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ قوم کی آواز بن کر ادارے کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اور کبھی وہ ادارے کے فرنٹ مین بن کر سیاستدانوں اور پاکستانی عوام کو حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ یقیناً یہ وہی کریک دماغ کے حامل افراد ہوتے ہیں جو حقیقت میں دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل پیراں ہوتے ہیں اور پاک فوج جیسے مقدس ادارے کے پیچھے چھپ کر اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یہی لوگ اپنے حلف کی پاسداری کریں، اپنے وطن کی خاطر جان قربان کریں، اپنے وطن کے آئین و قانون کو تہہ دل سے تسلیم کریں، پاکستانی قوم اور سیاستدانوں کو غداری جیسے القابات سے نوازنے سے باز آ جائیں، پاکستانی قوم کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں سے غائب کروانے جیسے گندے عوامل سے باز آ جائیں تو قوم بھی انکو ہمیشہ اپنی پلکوں پہ بٹھائے گی اور انکو ہمیشہ میجر شبیر شریف، میجر عزیز بھٹی، پائلٹ راشد منہاس، سوار محمد حسین، کیپٹن محمد سرور، نائیک سیف علی سمیت ہزاروں فوجی جوان جو اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ہیں انکے ساتھ یاد رکھے گی لیکن اگر یہی لوگ حلف کی پاسداری نہیں کریں گے، وطن کی حفاظت صحیح معنوں میں نہیں کریں گے، عوام کو اذیتیں پہنچائیں گے، لوگوں کو بیگناہ غائب کروا کر ماریں گے، حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹیں گے اور وردی میں سیاست کریں گے تو یقیناً پاکستانی قوم انکے لیے اپنے دل کے دروازوں کو ہمیشہ کے لیے بند کر دے گی اور ان کا شمار ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، مشرف جیسے آمروں کے ساتھ کیا جائے گا۔ یہاں پر ایک اہم نقطہ آپ کو سمجھاتا چلوں کہ جو فوجی حاضر سروس ہو یا ریٹائرڈ، جرنیل حاضر سروس ہو یا ریٹائرڈ، پرودگار کے نام پر حلف اٹھانے کے بعد اپنی ملازمت کو قانون کے مطابق گزارتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے دل کی ساری مرادوں کو پورا کر دیتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں انکے لیے عزت و احترام کو بڑھا دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگر کوئی شخص اپنے حلف سے روگردانی کرتا ہے تو اللہ تعالٰی عوام کے دل سے اسکے لیے عزت و احترام کو نکال دیتے ہیں اور اس کا خاتمہ شرابی، زانی، خودکشی، جہاز کے حادثے میں، گھریلو ناچاکی اور ایکسیڈنٹ جیسے واقعات میں ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور جن کے ساتھ یہ واقعات رونما ہوتے ہیں انکی زبانی سنے بھی ہیں اور وہ اپنا اختتام صرف اسی بات پر کرتے ہیں کہ یہ جو حلف نامہ ہے یہ انسان کی عزت میں اضافہ بھی کرتا ہے اور انسان کو رسوا بھی کر دیتا ہے۔ میں جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں یہ اپنی ذاتی تسکین کے لیے نہیں بلکہ ایک آئینے کے طور پر لکھ رہا ہوں اور اگر یہی سب کچھ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں کریں گی تو انکے ساتھ بھی ویسا ہی انجام ہوگا جو آج آئین شکنی والوں کے ساتھ ہوتا آ رہا ہے۔
پاکستان میں سب سے پہلے میر جعفر کے پڑپوتے و صدر مملکت میجر جنرل سکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے آئین و قانون کو پاؤں تلے روند کر وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی حکومت کو برطرف کیا اور آرمی چیف جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نامزد کیا۔ سکندر مرزا نے جس ایوب خان کو اپنا چہیتا بنایا تھا آخر اسی چہیتے نے ہی سکندر مرزا سے صدارت کی کرسی چھینی اور سکندر مرزا کو ملک بدر کر دیا۔ سکندر مرزا دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے اور 3 نومبر 1969ء کو برطانیہ میں انتقال کرگئے لیکن اسکو پاکستانی سر زمین میں دفن ہونا نصیب نہ ہوا اور نہ ہی جنرل یحیٰی نے اسکی میت کو پاکستان لانے کے لیے کوئی خاص انتظامات کیے بلکہ الٹا سکندر مرزا کے رشتہ داروں کو بھی جنازے میں شرکت کرنے سے روک دیا اور بالآخر سکندر مرزا کو ایران کی سرزمین تہران میں دفنایا گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جس نے صدارت حاصل کرنے کے لیے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غدار ٹھہرایا، آج فاطمہ جناح کی قبر پر ہزاروں کا اجتماع ہر وقت موجود ہوتا ہے اور ایوب خان قصہ ماضی بن چکے ہیں۔ ایوب خان کے بعد جنرل یحیٰی خان جو اپنی مستیوں کی وجہ سے کافی مشہور ہیں اور پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں ان کا بھی ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ بڑا اہم کردار تھا لیکن جب ذلالت حصے میں آئی تو اپنی ہی فوج کے ہاتھوں طویل عرصے تک نظر بند رہے اور آج قوم جنرل یحیٰی خان کو بالکل بھول چکی ہے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جتنی مرضی خامیوں کے مالک تھے لیکن آج بھی لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو یاد کرتے ہیں کیونکہ اس نے ملک کو 73ء کا آئین اور ختم نبوت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا قانون دیا ہے اور ضیاء الحق نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے عسکریت پسندوں اور طالبانوں کو پروان چڑھایا جس کا نقصان پاکستان کو ہر گزرتے وقت کے ساتھ ہو رہا ہے اور عالمی ادارے بھی پاکستان کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جس طرح پہلے ادوار میں پاکستان کو پزیرائی ملا کرتی تھی لیکن آج ضیاء الحق کا نام لیوا کوئی بھی نہیں ہے۔ پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کرکے “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگایا اور ہمیشہ کے لیے شریف خاندان کے اوپر سیاست کے دروازے بند کرنے کا اعلان کیا لیکن آج پرویز مشرف کو پھانسی کا حکم ہے اور وہ پاکستان سے بھاگا ہوا ہے اور دبئی میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہے لیکن میاں نواز شریف آج بھی سیاست کے محور ہیں اور آئے دن ان کی جماعت کامیابیوں کو چھو رہی ہے۔
میاں نواز شریف جب تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو انہیں “باجوہ ڈاکٹرائن” کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کے ذریعے نااہل کروایا گیا اور انہیں دس سال تک سیاست سے باہر رکھنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کی بازگشت ہمیں اس وقت کے جنرل عاصم سلیم باجوہ اور جنرل آصف غفور سے سننے کو ملتی تھی۔ مسلم لیگ ن کے کارکنان و قائدین کو ذاتی عناد کا نشانہ بنایا گیا، جنرل فیض حمید ان ساری کاروائیوں کے ہم پلّہ تھے اور مخالفین کو غائب کرنے میں کافی مہارت رکھتے تھے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ “باجوہ ڈاکٹرائن” بالکل ناکارہ ہو چکی ہے اور عوام میں فوج کے لیے جتنی پہلے عزت تھی اب اتنی نہیں رہی کیونکہ عوام کا یہی بیانیہ ہے کہ ہمارے ووٹ کو زور زبردستی کیساتھ چوری کرکے مہروں کو نوازا گیا جس سے پاکستان کو ملکی و غیر ملکی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے۔
آج پھر کچھ ریٹائرڈ کور کمانڈر جو حقیقت میں کروڑ کمانڈر ہیں، بریگیڈیئر، جنرلز عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ٹیلی ویژن کی سکرین پر اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب عوام انکے خلاف ردعمل ظاہر کرتی ہے تو 30 لاکھ والی لینڈ کروزر اور پاپا جونز پیزے کا کاروبار کرنے والے عاصم سلیم باجوہ جیسے جنرل چار دن کا کہہ کر امریکہ بھاگ جاتے ہیں اور واپس آنے کا نام تک نہیں لیتے کیونکہ انہوں نے بھی اپنے حلف سے روگردانی کر رکھی ہے اور عوام کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔
میری ان ریٹائرڈ جرنیلوں اور بریگیڈیئروں سے درخواست ہے کہ پہلے وہ سرکاری تنخواہیں، سرکاری زمینیں اور دیگر سہولیات واپس کریں اور پھر پاکستانی عوام کے درمیان جاکر اپنے سیاسی نظریات کا اظہار کریں ورنہ قوم بھی آپ کے ساتھ وہی کچھ کرے گی جو تاریخ میں آمروں کے ساتھ ہوتا آیا ہے، لہذا دانش سے زیادہ دانشمندی سے کام لیں۔
The contributor, Mian Mujeeb-ur-Rehman, is a chemical engineer who doubles as a columnist, having conducted research and crafted blogs for the past several years as a personality for various newspapers and websites throughout Pakistan.
Reach out to him @mujeebtalks.