وہ سب معصوم سے چہرے تلاش رزق میں گم ہیں ۔ جنہیں تتلی پکڑنا تھی جنہیں باغوں میں ہونا تھا۔
آپ نے اپنا بچپن خوشیوں بہاروں رنگینیوں میں گزارا ہو گا آج بھی بچپن کے وہ سہانے دن یاد آتے ہوں گے اور سوچتے ہونگے کاش وہی بچپن وہ زندگی کے مزے دوبارہ آجائیں. لیکن آپکے پاس ہی ایک ایسی بستی ایسا معاشرہ ہے جہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر انکا بچپن نہیں ہوتا. آپ نے تو بچپن کھلونوں سے کھیل کر کے گزارا ہو گا مگر انھیں اسی چھوٹی سی عمر میں حالات سے مجبور ہو کر سڑک پر کھلونوں اور کتابوں کی بجائے ہاتھ میں اوزار لیکر کام کرنے نکلنا پڑتا ہے. نہ تو ان کے سر پر چھت ہوتی ہے نہ ہی کوئی سہارا.ان کو پورے خاندان کی زمہ داریاں بچپن میں مل جاتی ہیں. انکے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ ہوتا وہ اپنا سارا بچپن سڑک کی غلاظت میں گزار دیتے ہیں. ان بچوں کے لیے کوئی عید کوئی خوشی کوئی تہوار نہیں ہوتا. کتنا درد ہوتا ہو گا ان نونہال بچوں کو جب کھلینے کودنے کی عمر میں انکے ہاتھوں میں مشقت کے چھالے پڑ جاتے ہیں۔
بچے کسی بھی ملک کا مستقبل اور اثاثہ ہوتے ہیں.لیکن ان بچوں کے ہسنے کھیلنے کے دنوں میں انکو کام پر لگا دیا جاتا ہے تاکہ گھر کا نظام چل سکے دو وقت کی روٹی نصیب ہو سکے.سکول میں جانے کی عمر میں ان معصوم پھولوں کو ہوٹلز, بسوں,چائے خانوں,مارکیٹوں, دکانوں یا ورک شاپس پر مشقت کےلیے لگایا جاتا ہے. آپ نے بےشمار گلشن کے پھولوں کو کچروں کے ڈھیر میں رُلتے دیکھا ہو گا. گلیوں میں بسنے والے بچوں کو کوئی سہارا نہیں دیتا. وہ خود کما کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور اسی سڑک پر سو کر زندگی بسر کرتے ہیں.کچھ غریب خاندان بچوں کو سڑکوں پر چھوڑ جاتے ہیں اور وہ معصوم بال بھیک مانگ کر اپنے خاندان کو پالتے ہیں اور خود زندگی سڑک پر گزار دیتے ہیں۔
اسٹریٹ چائلڈ ایک عالمی مسلہ بن چکا ہے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں ان کی تعداد 150 ملین کے لگ بھگ ہے. لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے.اسٹریٹ چلڈرن ایک معاشرتی چیلنج ہے. انکے پھیلاو کی بنیادی وجوہات غربت,قحط,مہنگائی,شہرکاری بےروزگاری,حکومتی عدم توجہ ہے. یہ خونی معاشرہ ظالم سماج انھیں بھوک اور تنگ دستی کی وجہ سے کچل دیتا ہے.کیونکہ جینے کے لیے خوراک بھی اتنی ہی ضروری ہے جیسے پانی اور سانس۔
دنیا کے دیگر ترقی پزیر ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی اسٹریٹ چلڈرن کا مسئلہ درپیش ہے. عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں۔
تقریباً 33فیصد بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں، یہاں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیں اور دن بدن اس میں اضافہ ہو رہا ہے. اسکی بڑی وجہ شہری آبادی میں مسلسل اضافہ اور آمدن کے وسائل میں مسلسل کمی ہے. بے روزگاری اور بےگھر افراد کی شرح پہلے ہی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں. اسی وجہ سے جب غریب خاندان غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں تو بال مزدوری اسٹریٹ چلڈرن جیسے چیزیں پنپنے لگتی ہیں.اور اس وقت یہ ایک المیہ بن چکا ہے معاشرے میں ایک ناسور کی طرح پھیل رہا ہے۔
امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے. اس بے رحم معاشرے میں ان پھولوں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے. ان سے بچپن میں ہی سخت مشقت کروائی جاتی ہے معمولی باتوں پر تشدد کیا جاتا ہے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں. انکی تعلیم اور صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا. طرح طرح کی بے رحمیوں ناانصافیوں,مظالم ,دکھ درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان پھولوں مسل دیتے ہیں. کم عمری میں ہی غلط کاریوں میں لگا دیا جاتا ہے کیونکہ ان معصوم پھولوں کا نگہبان کوئی نہیں ہوتا.بس اوپر آسمان چھت اور سڑک انکا بستر ہے.یہ حالات کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں مگر کوئی انکو نہیں تھامتا نہ انکی فریاد سنتا ہے۔.
آخر میں اتنا کہ اب اگر اس لعنت کو ختم کرنا ہے تو حکومت کے ساتھ معاشرے کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے. اپنے آس پاس غریب خاندان کے بچوں کی کفالت کا زمہ اٹھانا چاہے یہ ہم پر فرض ہے. معاشرے پر لازم ہے کہ وہ ان بچوں سے مزدوری محنت مشقت کروانے کی بجائے انکی صحت تعلیم اور خوارک کے انکی سپورٹ ,کرے. اور ریاست تو ماں ہے اس ماں کے ہوتے ہوئے یہ پھول کیوں در بدر سڑکوں کچرے خانوں میں رُل رہے ہیں. اگر یہ معصوم پھول یوں ہی اجڑتے رہے تو یہ چمن بھی اجڑ جانا ہے.افسوس یہ کلیاں پھول کھلنے سے پہلے ہی مسل دی جاتی ہیں۔
اسی سلسلے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
نظام بدلنے تک یہ درد بھی سہنا ہے۔
مزدور کے بچے کو مزدور ہی رہنا ہے۔