وہ بےگناہ ہیں۔ اس بات کا یقین اُس وقت بھی تھا جب ریاست کی کُل مشینری اپنی پوری طاقت، اختیارات اور وسائل کے ساتھ انہیں مجرم ثابت کرنے پر کمر بستہ تھی۔ 24/7 میڈیا پر اینکر، تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار کاغذات کے پلندے لہرا لہرا کر انہیں مجرم ثابت کرنے پر کمربستہ رہتے تھے۔
عدالتوں میں استغاثہ سے زیادہ دلائل معزز کہلانے والی عدلیہ کے ریمارکس میں ہوتے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ منصف خود بھی فریق ہیں۔ سوشل میڈیا پر الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ کردار کشی کے لیے فحش الفاظ اور میمز کی بھرمار تھی۔ ریاستی ایجنسیاں معاملات کو خود مینج کرتے ہوئے ضرورت کے مطابق ججز، سیاسی و ذاتی دوستوں اور حلیفوں کو دھمکانے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ورکرز کی من پسند تربیت میں مصروف تھیں۔ ایسا سماں باندھ دیا گیا تھا کہ جیسے پاکستان کا صرف ایک ہی مسئلہ ہے یا پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ بس وہی ایک شخص ہے اور اگر پاکستانی سیاست میں سے ان کا کردار ختم کر دیا جائے اور ان کی سیاست کو ماضی کی گم گشتہ کہانی بنا دیا جائے تو پاکستان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہاں نہ چیزوں کی بلند و بالا قیمتیں رہیں گی اور نہ ڈالر اُڑان بھرے گا؛ نہ بےروزگاری ہو گی اور نہ سرمایہ کاری کی کمی آئے گی؛ نہ معاشی بدحالی ہو گی اور نہ سفارتی ناکامی کا کبھی سامنا ہو گا؛ نہ ظلم ہو گا اور نہ ناانصافی ہو گی۔ دودھ اور شہد کی ایسی نہریں بہیں گی جس میں ہر پاکستانی تر جائے گا اور پاکستان دنیا کے افق پر سب سے اونچا ستارہ بن کر چمکے گا۔ کشمیر آزاد ہو جائے گا، صوبوں کے درمیان تعصبات کا خاتمہ ہو گا، دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو گا، مذہبی انتشار و انتہا پسندی قصہ پارینہ بن جائے گی؛ کہیں کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکے گا اور ظلم و زیادتی کا ہر در بند ہو جائے گا۔ اس ایک شخص کی سیاست ختم کر دینے سے جیسے پاکستان کا نقشہ ہی بدل جائے گا اور ہر چہرے پر امن، سکون، سکھ اور خوشحالی کی چمک آ جائے گی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اس ایک شخص کو انتخابی سیاست کے لیے تاحیات نااہل کرتے ہوئے مافیا اور گاڈ فادر بنا کر اقتدار سے بےدخل کر دیا گیا۔ بدترین میڈیا ٹرائل کے درمیان مفروضوں پر سزائیں سنائی گئیں اور جیل میں مار دینے کی کوششیں ہوئیں۔ بیماری کے دوران جب زندگی کے لالے پڑ گئے تو خود کو بچانے کے لیے باہر تو بھجوا دیا گیا لیکن دشنام و الزام تراشی اس وقت بھی جاری رہی۔ کبھی وطن واپسی کے راستے بند کرتے اور کبھی کہتے واپس کیوں نہیں آ رہے؟ جب واپسی کی خبریں آتیں تو کہتے یہ واپس کیوں آ رہا؟ اور جب واپسی تاخیر کا شکار ہوتی تو دشنام ترازی کا نیا پہلو نکال لیا جاتا۔
اُس شخص کو پاکستانی سیاست سے بےدخل کرنے کی ہزار خواہش کے باوجود بدترین مخالف آج بھی اپنی گفتگو تک سے باہر نہیں نکال سکے۔ ان کے ٹاک شوز ہوں یا ولاگز، کالم ہوں یا بلاگز، ٹوئیٹس ہوں یا سوشل میڈیا پوسٹس جب تک ان کا ذکر نہیں آتا ریٹنگ نہیں ملتی۔
سیاست میں نفرت کے استعارے ہوں یا محبت کے اشارے؛ اپنائیت کے کنائے ہوں یا دشمنی کی تلمیحات وہ شخص ہر جگہ موجود ہے البتہ ان کے ایوانِ اقتدار میں نہ ہونے کے عوض معاشی ترقی و خوشحالی کے جو خواب دکھائے گئے تھے ان خوابوں کو تعبیر نہیں ملی اور ملتی بھی کیسے؟ بغض، نفرت، عناد کی بنیاد پر کیے گئے ظلم کی بنیادوں سے کبھی خیر کی روشن کرنیں نہیں پھوٹ سکتیں۔
کل جب میں نے پڑھا کہ ان کی بریت فوج پر گرنے والا ملبہ ہوتا اس لیے سزائیں دلوائی گئیں تو اللہ کے انصاف پر سر بےاختیار سجدہ شکر کے لیے جھک گیا کہ جس شخص کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ریاست کے کُل پرزوں کو متحرک کر دیا گیا تھا؛ آج انہیں متحرک کرنے والے کی زبان خود ہر سازش کی پرتیں کھولتے ہوئے انہیں بےگناہ ثابت کر رہی ہے۔
ان اللہ مع الصابرین۔
100 percent agreed
Allhamdollilah we stand with him then now and forever
حقائق پر مبنی شاندار تحریر جب ریاست کے مختلف اداروں کے کُچھ افراد نے اپنے ہی مُلک کو ڈبونے میں اپنا پورا زور لگا دیا جسکا نتیجہ آج مملکت کی تباہی کی صورت سامنے آیا ھے۔
ان الله مع الصابرين
اللہ کی مدد ہی سب سے بہتر مدد ہے
Well said
These are the kind of people we need in our mainstream media whether electronic or print either way , to keep the soul alive in the writings of our media which once was on top of the position in world media due to it’s precisely calculated words in best possible way, the beauty of Urdu language and etiquette that the reader of any background, capacity, education or intellect would understand and enjoy and get the message of the writer.
In short, bravo 👏 just keep writing more often as in Pakistan we don’t have scarcity of issues to talk about.