سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم حیدر نے وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنی پسند اور خواہش کے مطابق پرنٹ میڈیا سے منسلک ہوا، تب ڈیجیٹل میڈیا نہیں تھا، میں نے ایک سیاسی گھرانے میں پرورش پائی اور اس لیے سیاست میں بہت دلچسپی رکھتا تھا، اخبارات پڑھنے میں دلچسپی رکھتا تھا اس لیے صحافت میں آنے کا شوق ہوا لیکن پھر جب صحافت پر مشکل وقت آیا اور صحافت ایک پراپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال ہونے لگی تو میں اس سے الگ ہو گیا کیونکہ میں کسی پراپیگنڈا ٹول کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ میں نے صحافت چھوڑ پر پبلک سیکٹر میں پالیسی لیول پر انٹروینشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور میں وہاں پریشر کے باجود خوش رہا، میرا ضمیر مطمئن رہا۔ مجھ سے غلطیاں ہوئی ہوں گی مگر میں نے دانستہ طور پر یا بدنیتی کے ساتھ کبھی کسی غلط کام میں شمولیت اختیار نہیں کی۔
ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اس سفر میں مجھے اور میری فیملی کو بہت مشکل وقت دیکھنا پڑا جو کہ میرے لیے تمغہ ہیں۔ میں نے فاشزم کا مقابلہ کیا اور اسہ وجہ سے صحافت میں اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔ میں اینالسٹ بن کر خوش تھا اور واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ بہت سارے صحافی جو کئی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں، ڈکٹیٹرز کے ساتھ رہے ہیں، ان سے خفیہ طور پر رقوم حاصل کرتے رہے ہیں، اپنی فیملی کیلئے مفادات حاصل کرتے رہے ہیں وہ مجھ پر تنقید کرتے ہیں حالانکہ میں علی الاعلان پبلک سیکٹر میں آیا اور میں نے کوئی غیر آئینی یا غیر قانونی کام نہیں کیا۔ یہ لوگ صرف اس لیے میرے خلاف بولتے ہیں کیونکہ میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوں اور میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سمیت تمام شعبوں میں مداخلت کا مخالف ہوں۔ کیا میڈیا کوئی مافیا ہے جس میں سے نکلا نہیں جا سکتا؟ میں اپنی مرضی سے 25 سال میڈیا میں رہا اور اپنی مرضی سے پبلک سیکٹر میں گیا۔ میں اگر چیئرمین پیمرا رہا تو میں نے اپنی ذمہ داریاں آئین و قانون کے مطابق پوری کیں، کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج تک میرے خلاف کوئی کیس دائر نہیں کیا جا سکا، کوئی جھوٹا کیس بھی نہیں بنایا جا سکا کیونکہ میں نے کچھ غلط کیا ہی نہیں ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جب میں پیمرا کا چیئرمین تھا تو کچھ جرنیلوں اور ججز نے پاکستان کے خلاف سازش تیار کی اور یہ سازش پاکستان کو چین سے دور کرنے کیلئے تھی، یہ پاکستان کو امریکی کیمپ میں شامل کرنے کیلئے تھی، یہ سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے تھی۔ اس وقت کی حکومت (نواز شریف حکومت) کے خلاف سازش تیار کی گئی کیونکہ وہ سی پیک لائی تھی، اس سازش میں ججوں، جرنیلوں اور میڈیا پاؤسز کا گٹھ جوڑ شامل تھا۔ میں انہیں کبھی معاف نہیں کروں گا، اللّٰہ کے سامنے ہر کسی کی منافقت عیاں ہے، میں انہیں قیامت کے روز گریبان سے پکڑ کر گھسیٹوں گا۔ مجھے عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے، میں اپنے بچوں کو بتا چکا ہوں کہ اس عدلیہ پر اعتبار مت کرنا اور اپنے معاملات اللّٰه پر چھوڑ دینا۔ میں نے دو جرنیلوں، دو ججوں اور دو میڈیا ہاوسز کا معاملہ اللّٰه پر چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے میرے خلاف پراپیگنڈا کیا کیونکہ میں نے ان کی سازش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ نواز شریف کے خلاف سازش دراصل پاکستان کے خلاف سازش تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے پاس ان تمام کالز کی ریکارڈنگ موجود ہے جو مجھے پریشرائز کرنے کیلئے کی جاتی تھیں، مجھے ڈرانے دھمکانے کیلئے کی تھیں، جنرل فیض اور دیگر کچھ جرنیل مجھے دھمکیاں دیتے تھے کہ فلاں کو میڈیا پر بند کر دو اور فلاں پر پابندی لگا دو اور فلاں ہمارے لیے مذہب کو استعمال کر رہا ہے اس کو کوریج دو۔ میرے انکار پر میرے خلاف جھوٹ بولے گئے، پراپیگنڈا کیا گیا، میرے خلاف س پراپیگنڈا کو دیکھ کر میری والدہ ڈائی مینشیا کا شکار ہو گئیں اور ان کی یادداشت چکی گئی، اب وہ پورے خاندان میں صرف مجھے پہچانتی ہیں، میں اپنی والدہ کی اس حالت کے ذمہ داروں کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ میرے بچوں کو یونیورسٹی میں Bully کا نشانہ بنایا گیا۔ مجھے ان جرنیلوں نے لاہور ہائیکورٹ کے ذریعہ پیمرا سے نکلوا دیا، میں قیامت کے روز ان سے انتقام لوں گا۔
ابصار عالم نے بتایا کہ مجھے دھمکیاں دی جاتی تھیں، میں نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار کو خطوط لکھے اور انہیں آگاہ کیا۔ میں نے پریس کانفرنس کر کے ایک فون کال کی ریکارڈنگ چلا دی۔ میں نے بڑے بڑے جرنیلوں، ججوں اور میڈیا ٹائیکونز کو بڑے بڑے ڈعوے کرتے دیکھا اور پھر انہیں انجام کی طرف جاتے بھی دیکھا۔ آج جنرل فیض کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، آج ثاقب نثار منہ چھپاتا پھرتا ہے، یہ لوگ اپنے کرتوت کا انجام بھگتیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شرفاء کے خلاف اپنے جھوٹ پھیلانے کیلئے اپنے کتے چھوڑ دیئے۔ میں پیمرا سے الگ ہو کر خوش رہا ہوں، مین رویا دھویا نہیں اور نہ میں بین کرنے والا ہوں۔ میں اللّٰه پر ایمان رکھنے والا ہوں، مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا، گولی ماری گئی مگر میں نے اللّٰه پر توکل کرتے ہوئے سارا معاملہ اللّٰه پر چھوڑ دیا۔
سابق چیئرمین پیمرا نے کہا کہ مجھ پر نوکری کے دروازے بند کر دیئے گئے، صرف پاکستان نہیں بلکہ پاکستان سے باہر بھی نوکری کت دروازے بند کیے گئے۔ میں نے TRT کو انٹرویو دیا اور میری جاب فائنل ہو گئی، واپس آ کر میں نے ایک اینالسز بھی دیا جس کے اک گھنٹہ کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے TRT کو کال کر کے کہا گیا کہ اگر آپ پاکستان میں اپنا آپریشن جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ابصار عالم کی شکل نظر نہیں آنی چاہیے، اس کو فوراً نکال دیں اور اس کا کوئی آرٹیکل شائع نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے BBC اور VOA نے بھی لکھنے سے انکار کر دیا۔ مجھے پاکستان میں کوئی نوکری دینے کو تیار نہیں تھا۔
انہوں نے قاتلانہ حملہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے گولی لگی تو میں نصرت فتح علی خان کی غزل “آرزوئے محبت” سن رہا تھا جو میں روزانہ واک کرتے ہوئے سنتا تھا۔ جس وقت گولی لگی تب “دوستی کا بھروسہ نہیں، دشمنی کا گلہ کیا” والے بول چل رہے تھے اور اسی وقت دشمن نے وار کر دیا۔ مجھے کچھ نظر نہیں آیا مگر گولی کی آواز آئی اور مجھے معلوم تھا کہ مجھے گولی لگ چکی ہے مگر میں نے ایک چھڑی اٹھا کر گولی مارنے والے کی جانب مڑ کر دیکھا اور کہا “تم نے مجھے گولی مار دی” اور یہ سن کر وہ وہاں سے فرار ہو گیا، شاید وہ دوسری اور تیسری گولی بھی چلاتا مگر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔ لوگ بھی مجھ سے دور دور چلے گئے اور کوئی میرے قریب نہیں آیا۔ مجھے جیکٹ اور ٹی شرٹ میں سوراخ نظر آیا اور مجھے لگا کہ گولی سامنے سے لگی ہے مگر وہ پیچھے سے لگی تھی اور پسلی کو توڑتے ہوئے آگے نکلی تھی۔ میں خود واک کرتے ہوئے اپنے گھر کے باہر آ کر بیٹھ گیا اور ایک دوست کو کال کر کے کہا کہ مجھے گولی لگی ہے، مجھے ہسپتال لے کر جاؤ۔ تب تک وہاں کچھ لڑکوں نے گزرتے ہوئے مجھے دیکھا تو گاڑی میں ہسپتال لے گئے۔ اللّٰه کا شکر ہے میں ہوش میں تھا اور کلمہ و درود کا ورد کر رہا تھا۔ لڑکوں نے شاید اپنے اوپر الزام آنے کے خطرہ کے پیش نظر میری ویڈیو بنانا شروع کی، مجھے ویڈیو بنانے کا پتہ لگا تو جو میرے دل میں تھا وہی بول دیا اور اللّٰه کی طرف سے وہ ویڈیو پیغام خود بخود مجھ سے جاری ہو گیا۔
انہوں نے اس تلخ واقعہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہسپتال پہنچ کر خود واک کرتا ہوا سٹریچر پر بیٹھا، مجھے لگا کہ میں مر جاؤں گا مگر اللّٰه نے مجھے بچا لیا۔ میں حوصلہ ہارنے والا نہیں ہوں، مجھے اللّٰه پر پورا یقین ہے۔ اللّٰه نے مجھے ایک بےپرواہی دے دی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اب میری زندگی لیز پر ہے جو کبھی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ مین نے اپنے نامکمل کام مکمل کر لیے ہیں اور ساری تیاری کر لی ہے، تب شاید میں تیار نہ تھا مگر اب موت کیلئے تیار ہوں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کچھ بھی ہو جائے مگر انشاءاللّٰه سچ بولنا نہیں چھوڑوں گا۔ میری commitment صرف اللّٰه کے ساتھ ہے، کسی فرد کے ساتھ نہیں ہے۔ جو میرے ملک کے دشمن ہیں، میں ان کے خلاف کھڑا رہوں گا۔
ابصار عالم نے انکشاف کیا کہ قاتلانہ حملہ کے بعد جنرل باجوہ نے لاہور کے ایک جرنلسٹ کے ذریعہ رابطہ کیا اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ باجوہ صاحب معافی مانگنا چاہتے ہیں اور میں ان کے گھر جاؤں مگر میں نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد کہا گیا کہ باجوہ صاحب کے کزن گھمن صاحب میرے گھر آ کر معافی مانگنا چاہتے ہیں لیکن میں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے اور اللّٰه سب سے بڑا فیصلہ ساز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی طرف سے فواد چودھری ایک دوست کے توسط سے ملنے آئے اور مجھے کہا کہ آپ زمان پارک آئین کیونکہ عمران خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نہیں گیا اور نہ جاؤں گا۔ مجھے منافقت پسند نہیں اور نہ مجھ سے منافقت ہوتی ہے۔ میں عمران خان کی بندوق کا کارتوس نہیں بننا چاہتا۔ میرے جو نظریات ہیں، ان پر ہر کوئی نہیں چل سکتا اور عمران خان تو ہر گز نہیں چل سکتے۔ عمران خان کو چار سال وفاق اور پنجاب میں جبکہ دس سال خیبرپختونخوا میں ملے، انہوں نے کیا کیا؟ عمران خان نے پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کر دیا، سفارتی تنہائی کا شکار کر دیا، دوست ممالک ہم سے دور ہو گئے، آئی ایم ایف سے تعلقات خراب ہو گئے، آج کوئی ہمیں قرض تو دور خیرات دینے کو بھی تیار نہیں کیونکہ عمران خان نے سب کا اعتماد توڑ دیا۔ موجودہ حالات کے ذمہ دار عمران خان ہیں اور 6 سالہ باجوہ ڈاکٹرائن ہے۔
نواز شریف کے متعلق سوال کے جواب میں ابصار عالم نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ بہت اچھا تعلق ہے، ان کے ساتھ عزت و احترام کا ایک تعلق ہے، مجھے ان کے خلوص پر کوئی شک نہیں ہے، میں نے ان کو پرکھا ہے اور ان کو 24 قیراط کا سونا پایا ہے۔ نواز شریف بہت اچھے انسان اور سیاستدان ہیں، ان کے ساتھ واقعی بہت زیادتیاں کی گئی ہیں اور وقت بتائے گا کہ ان کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ نواز شریف کے خلاف سازشیں رچانے والوں نے منافقت کی اور آنہیں دھوکہ دیا۔ نواز شریف 1999 کے بعد 2013 میں اقتدار میں آئے، اس دوران 14 سالوں میں کون سی دودھ کی نہریں بہا دی گئیں؟ نواز شریف کو 1997 سے اب تک 21 سالوں میں صرف ایک الیکشن لڑنے دیا گیا، ایسا کیوں کیا گیا؟ انہیں کیون الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا؟ اگر وہ چاروں الیکشن لڑتے اور عوامی رائے کا احترام کیا جاتا تو آج یقیناً حالات بہتر ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد اب تک کسی وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی جبکہ راحیل شریف، وحید کاکڑ اور کیانی کے علاوہ ہر آرمی چیف نے ایکسٹینشن لی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 45 میں سے 32 سالوں تک ڈاکٹرائن رہیں، کیا حاصل ہوا؟ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو خائن تھے اس لیے فوج کو مداخلت کرنا پڑی لیکن عمران خان تو ججوں، جرنیلوں اور میڈیا ہاؤسز کے گٹھ جوڑ کا چہیتا اور صادق و امین تھا، اس کو بھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، وہ بھی مداخلت کا رونا رو رہا ہے۔
سابق چیئرمین پیمرا کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف سازشیں رچانے والے امریکہ کے پٹھو ہیں، نواز شریف کو نکال کر عمران خان کو لانے کیلئے امریکہ نے سازش کی اس میں جرنیلوں، ججوں اور میڈیا ہاؤسز نے سہولت کاری کی کیونکہ یہ لوگ پاکستان کو چین کے کیمپ سے نکا کر امریکی کیمپ میں لے کر جانا چاہتے تھے۔ پاکستان کو امریکی گود میں بٹھانے کیلئے عمران خان کو لایا گیا۔ اگر عمران خان کے خلاف امریکہ نے سازش کی تو وہ آج لابنگ فرمز ہائر کر کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ آج چار سال کے بعد گوادر پورٹ کھلا ہے، چار سال بعد خنجراب پاس کھولا گیا ہے، چار سال بعد چین کے ساتھ تعلقات بحال ہو رہے ہیں اور چین ہمارے لیے لون کو رول اوور کر رہا ہے۔ اب سعودی عرب بھی ہمیں بریدنگ سپیس دے رہا ہے اور خود بھی امریکی کیمپ سے نکل کر چین اور روس کے قریب ہو رہا ہے حالانکہ کل تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکہ کے ساتھ تھے۔ ابھی بھی عمران خان سمیت بہت سارے جرنیل، جج، سیاستدان اور آدھی سوسائٹی امریکہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں کیونکہ وہاں ان کے مفادات ہیں۔
پاکستان کے مستقل کے متعلق انہوں نے کہا کہ مجھے اللّٰه پر پورا یقین ہے کہ حالات بہتر ہوں گے۔ میں اللّٰه پر ایمان رکھتا ہوں اور میں کبھی کبھی ایسی انہونی باتیں بھی کرتا ہوں کہ میرے رشتہ دار ہنستے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر آج ہم سمت درست کر لیں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں لیکن اگر سازشیں جاری رہیں تو پھر ایسا نہیں ہو گا۔ بہرحال لوگوں نے یہیں رہنا ہے اور بالآخر ایک دن حالات ضرور اچھے ہونے ہیں۔
سیاست میں آنے کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے اب ساری ڈوریں اللّٰه کے سپرد کر دی ہیں، وہ جہاں لے جائے گا وہاں چلا جاؤں گا۔ ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا سٹیج آتا ہے کہ وہ تمام معاملات اللّٰه پر چھوڑ دیتا ہے اور مین زندگی کے اس حصہ میں پہنچ چکا ہوں، میں تو ہمیشہ سے ہی اللّٰه پر توکل رکھتا ہوں۔ میرے ٹویٹر اکاؤنٹ پر میرے ٹویٹس دلِ یزداں میں کھٹکتے ہیں اور ان کی وجہ سے مجھے بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے۔
ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اللّٰه کسی انسان کو بلندی پر لے جاتا ہے تو نیچے رہ جانے والے انسانوں کو اوپر لانے کی کوشش کرنا کامیاب انسان کر فرض ہے۔ میرے سمیت ہر انسان ہینڈ ہولڈنگ کے متعلق جوابدہ ہے۔ میں کسی بھی انداز میں اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں۔ اللّٰه ہمیں جتنی توفیق دے، ہمیں اتنی کوشش تو کرنی چاہیے۔
تجھے گُر فقر شاہی کا سکھا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی
اقبال