وی نیوز کیساتھ انٹرویو میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق سینئر جج شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اب صدر پاکستان بننا چاہتے ہیں اور ثاقب نثار کی صدر پاکستان بننے کے لیے تگ و دو کے بارے میں ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں۔
جسٹس شوکت صدیقی نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ان سے کہا ہے کہ اگر ہم انتخابات میں منتخب ہو کر حکومت بناتے ہیں تو صدر پاکستان کے عہدے کے لئے ہمارے امیدوار آپ ہوں گے اسی لیے ثاقب نثار قانونی، غیر قانونی، آئینی، غیر آئینی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ ثاقب نثار کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ بغیر مفاد کسی بھی قسم کی عمل میں شریک نہیں ہوتے اور ان کا سارا عدالتی کیریئر ایسا ہی ہے۔ اس وقت جو آئینی غیر آئینی، قانونی یا غیر قانونی جو سرگرمیاں جاری ہیں ان سب کا مقصد وہی وعدہ ہے جو عمران خان کی جانب سے اُن سے کیا گیا ہے۔
سابق جسٹس شوکت صدیقی کے مطابق موجودہ آئینی و قانونی بحران کا حل فل کورٹ ہے لیکن میں اس حق میں نہیں کہ سپریم کورٹ کے کسی حکم کو آپ پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے مسترد کریں۔
شوکت عزیز صدیقی نے مزید کہا کہ عدالتیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ خصوصی سلوک کر رہی ہیں جس سے عدالتوں کے بارے میں تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ کمپرومائزڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کے مقدمات میں اگر ملزم عدالت کی پہلی کال پر حاضر نہیں ہوتا تو اس کی درخواست ضمانت مسترد کر دی جاتی ہے لیکن عمران خان کے معاملے میں عدالتیں صبح سے شام تک ان کا انتظار کرتی ہیں جس سے عدالتوں کے کمپرومائزڈ ہونے کا تاثر مزید گہرا ہوتا ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی نے اس موقع پر کہا کہ شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ جس طرح سے عمران خان کو روٹین سے ہٹ کر ریلیف دیا جا رہا ہے، اس سے اس بات کی نفی ہوتی کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتیں عمران خان کے ساتھ ایک عام درخواست گزار کی بجائے ایک خصوصی درخواست گزار کے طورسلوک کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ ان کی ٹانگ میں سوجن ہو گئی ہے اور شوکت خانم ہسپتال کی رپورٹ بھیج دی۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں پرائیویٹ ہسپتالوں کے سرٹیفکیٹس تو قبول ہی نہیں کرتیں۔ اگر کوئی اور عام ملزم ہوتا تو اس کو پولیس کی حراست میں سرکاری ہسپتال کے میڈیکل بورڈ کے پاس معائنے کے لئے جانا پڑتا۔
شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ ملک میں آئینی اور قانونی بحران کی وجہ سے ایک ہیجانی کیفیت ہے جس کا حل صرف فل کورٹ بنانے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی سپریمیسی قائم کرتے کرتے ہمیں باقی اداروں کے اختیارات اور آزادیوں پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔
جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان مل بیٹھیں اورکوئی حل نکالیں۔ اگر تناؤ برقرار رہتا ہے تو اللہ نہ کرے ہم کسی غیر آئینی اقدام کی طرف نہ چلے جائیں۔ چیف جسٹس صاحب کو دل بڑا کر کے فل بینچ بنانا چاہیے کیونکہ یہ پورے ملک کا معاملہ ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر بات کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اسے معطل نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن اس پر سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور میری رائے میں یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا۔ اور اس پر بھی فل کورٹ کی ضرورت ہے۔
چودہ مئی کو پنجاب میں الیکشن ہونے کے حوالے سے سوال پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ زمینی حقائق کی روشنی میں یہ بڑا واضح ہے کہ اس تاریخ کو الیکشن اب نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کروانا آئینی ذمے داری یا ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یہ انتخابات کروانے ہیں اور صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا بھی آئینی ذمے داری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ وہ صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا انعقاد نہیں کروا سکتا تو پھر یہ 90 روز کی قدغن بے معنی ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں جو نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے اس نے اس میں یہی موقف اپنایا ہے بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کے اختیارات میں مداخلت کی ہے۔
شوکت صدیقی کے مطابق چیف جسٹس صاحب نے اشارہ دیا تھا کہ 14 مئی کو انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے وفاقی حکومت نے نظر ثانی اپیل دائر نہیں کی۔ اب چونکہ ایک نظرثانی درخواست دائر ہو گئی ہے تو امید ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی ہو جائے گی کیونکہ اس سے پہلے کسی درخواست کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کے لیے بھی اس فیصلے پر نظرثانی کرنا مشکل تھا۔