گزشتہ برس مئی کے اغاز میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی گئی، وزیراعظم کے عہدے پر فائز عمران خان نے اس تحریکِ عدم اعتماد کو اسلام آباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سازش قرار دیا اور کاغذ کا ٹکڑا لہرا کر اس کو دھمکی آمیز امریکی خط قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے خط لکھ کر یہ دھمکی دی ہے کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تو وہ پاکستان کو معاف نہیں کرے گا۔
Also read: ابصار عالم: جنرل باجوہ کا بیٹا اور میرا بیٹا
قومی اسمبلی میں اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کی بجائے اس کو امریکی سازش قرار دیا گیا اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اپوزیشن نے امریکی سازش میں شامل ہو کر پاکستان سے غداری کی ہے لہذا اس تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے فوری بعد وزیراعظم عمران خان کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی کو تمام اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری بھیجی گئی جو چند ہی لمحوں میں منظور کر لی گئی۔
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے تحت سماعت کے بعد ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا اور اسمبلیاں بحال کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا۔ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائی گئی اور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایوان نے عدم اعتماد کے ذریعہ وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا۔
اس کے بعد عمران خان نے قومی اسمبلی میں نہ بیٹھنے اور ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان نے سیاسی و فوجی قیادت ہر امریکی سازش کا حصہ بننے کے الزامات عائد کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا اور اس بیانیہ کی بنیاد پر سیاسی و فوجی قیادت کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے آرمی چیف سمیت فوج کی اعلیٰ قیادت پر امریکی سازش کا حصہ بننے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں غدار، میر جعفر اور میر صادق قرار دیا اور کہا کہ اگر فوج نے مجھے تحریکِ عدم اعتماد سے بچانے کی بجائے نیوٹرل کا کردار ادا کیا ہے تو وہ جانور ہے۔ عمران خان نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے راہنماؤں کو امریکی غلام قرار دیا جبکہ پی ڈیم ایم کی حکومت کو امریکہ کی جانب سے بنائی گئی امپورٹڈ حکومت کا نام دیا۔
سابق وزیراعظم نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ امریکہ نے ان کے دورہ روس کے باعث تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف سازش تیار کی۔ عمران خان نے امریکہ اور یورپ کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو پاکستان کی خودمختاری اور آزادی کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ہم کوئی غلام ہیں کہ جو امریکہ اور یورپ کہیں گے ہم وہ کریں گے؟
عمران خان نے اپنے الزامات اور مؤقف کے مطابق تحریکِ انصاف کی جانب سے امریکہ اور اس کے پاکستانی سہولت کاروں کے خلاف حقیقی آزادی کی جنگ کا اعلان کیا اور کہا کہ ہمیں امریکہ اور اس کی سازش میں حصہ بننے والوں سے آزادی حاصل کرنی ہے کیونکہ پاکستان ابھی تک حقیقی طور پر آزاد نہیں ہوا بلکہ یہاں ہم پر امریکہ کے غلام مسلط ہیں۔
مگر تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز امریکی کانگریس کی خاتون رکن میکسین واٹرز سے ”زوم“ پر ویڈیو لنک کے ذریعہ گفتگو کے دوران اپنی حکومت گرانے کا سارا ملبہ افواجِ پاکستان، آئی ایس آئی اور سیاسی قیادت پر ڈال دیا جبکہ سیاسی و فوجی قیادت کے خلاف امریکہ سے مدد کی بھی اپیل کر دی۔ اس گفتگو کے دوران عمران خان نے پاکستان کی افواج، انٹیلی جینس ایجنسی اور وفاقی حکومت پر سنگین الزامات عائد کیے اور میکسین واٹرز سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان کی مدد کریں۔
سابق وزیراعظم نے امریکی کانگریس کی خاتون رکن میکسین واٹرز سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے حق میں کوئی بیان جاری کریں کیونکہ ان کا بیان پاکستان کے موجودہ حالات میں عمران خان اور تحریکِ انصاف کیلئے مددگار ہو گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ شاید پاکستان کی تاریخ کا نازک ترین وقت ہے، ملک عجیب و غریب ترین حالات سے گزر رہا ہے، ایک قاتلانہ حملہ میں میری ٹانگ پر تین گولیاں لگیں جنہیں میرے جسم کے اوپر والے حصہ کو نشانہ بنانے کیلئے چلایا گیا تھا۔ میری حکومت کو سابق آرمی چیف نے ختم کیا کیونکہ پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ بہت طاقتور ہے اور اس نے موجودہ پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ مل کر میرے خلاف سازش کی، یہاں فوج اور آئی ایس آئی بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ میری پی ٹی آئی حکومت نے 2018 سے 2022 تک جو معاشی کارکردگی دکھائی وہ گزشتہ 17 سالوں میں بہترین تھی۔ فی الحال پی ڈی ایم حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اتحاد کی وجہ سے میری جان خطرے میں ہے۔
عمران خان نے امریکی کانگریس کی خاتون رکن کا نام لے کر انہیں مخاطب کیا اور کہا؛ میکسین! اگر آپ کوئی بیان جاری کریں تو وہ میرے لیے بڑا مددگار ہو گا۔ کسی بھی جمہوری جماعت کو کبھی اپنے بنیادی حقوق سے اس طرح محروم نہیں کیا گیا۔
چیئرمین تحریکِ انصاف کا مزید کہنا تھا کہ آپ تصدیق کر سکتی ہیں، آپ کو معلوم ہو گا کہ میں بالکل درست بات کر رہا ہوں۔ میکسین! اگر آپ ہمارے حق میں کوئی بیان جاری کریں تو ہمارے لیے یہ قابلِ تعریف ہو گا کیونکہ آپ کی کہی بات بہت دور تک پہنچتی ہے۔ ہم ایک بیان چاہتے ہیں اور جب کانگریس میں موجود آپ جیسی خاتون کوئی بیان دیتی ہے تو وہ پاکستان میں اثر رکھتا ہے۔
عمران خان کی ان شکایات اور التجاؤں کے جواب میں امریکی خاتون رکن کانگریس نے کہا کہ آپ کا شکریہ، آپ نے مجھ پر بھروسہ کر کے محکمہ خارجہ اور ہماری حکومت کے ساتھ یہ معلومات شیئر کیں، میں رسپانس کیلئے تیار ہوں۔
میکسین واٹرز نے کہا کہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریاست ہائے متحدہ کے محکمہ خارجہ نے اس معاملہ پر توجہ کیوں نہیں دی اور کیوں کوئی مداخلت نہیں کی، محکمہ خارجہ دنیا بھر میں جمہوریت کی حمایت کیلئے کام کرتا ہے، اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ جو کچھ آپ نے بیان کیا ہے اس کے مطابق پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ بات تشویشناک ہے کہ پاکستان میں آئین کو نظرانداز اور قانون کی توہین کی جا رہی ہے۔
امریکی کانگریس کی خاتون رکن نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اور ان تمام لوگوں کی جان خطرے میں ہے جو آپ کے ساتھ ہیں، آپ کی طرح سوچتے ہیں اور آپ کی طرح کام کرنا چاہتے ہیں۔ مجھ سے اس بارے میں جو بھی ہو سکا، میں کروں گی، میں پاکستان کے ان معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی وجوہات جاننے اور پاکستانی آئین کے دفاع میں آپ کی مدد کرنے کیلئے فوری طور پر محکمہ خارجہ سے بھی رابطہ کروں گی۔ میں آپ کی مدد کروں گی،آپ کیلئے لڑوں گی اور محکمہ خارجہ کا مؤقف سن کر بھی آپ تک پہنچاؤں گی اور اپنی رائے بھی بتاؤں گی کہ کیا کرنا چاہیے۔
عمران خان نے امریکی کانگریس کی خاتون رکن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئین، قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور بنیادی حقوق کے بارے میں امریکہ کی پالیسیز پر عمل چاہتے ہیں مگر فی الحال ان سب کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، حکومت سپریم کورٹ کے خلاف جا رہی ہے حالانکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ہم چاہیں گے کہ آپ ایک بیان دیں، کیونکہ اس سے ہمارے ملک میں فرق پڑتا ہے۔ میکسین واٹرز نے عمران خان کی بات کے جواب میں انہیں بیان جاری کرنے کی یقین دہانی کروائی۔