برلن/لاہور—جرمنی میں قائم نیوز ایجنسی ”ڈی ڈبلیو“ کے جرنلسٹ ٹم سبیسٹین کو ویڈیو لنک کے ذریعہ انٹرویو دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ جلد یا بدیر، مجھے جیل میں ڈال دیا جائے گا کیونکہ میرے خلاف 180 سے زائد مقدمات بنائے گئے ہیں، خدشہ ہے کہ موجودہ حکومت الیکشن میں تاخیر کرے گی۔
چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ میری جماعت کی تمام قیادت روپوش ہے اور قریباً 10 ہزار کارکنان جیلوں میں ہیں، جلد یا بدیر مجھے بھی جیل میں ڈال دیا جائے گا، کیا ایسے حالات میں میری پارٹی کو الیکشن لڑنے دیا جائے گا؟ پاکستان کے عوام کو الیکشن کا انتظار ہے مگر ممکن ہے کہ موجودہ حکومت شکست کے خوف سے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن میں تاخیر کرے۔
میزبان جرنلسٹ نے استفسار کیا کہ جب تک فوج آپ کی پشت پناہی کرتی رہی تب تک آپ کو فوج سے کوئی اختلاف نہیں تھا، ایک وقت تھا کہ ملکی پالیسی کے متعلق فیصلوں کیلئے آپ فوج کے ساتھ “سیم پیج” پر تھے لیکن اب جبکہ آپ اور فوج کے درمیان وہ محبت ختم ہو چکی ہے تو آپ اسی فوج پر مظالم ڈھانے اور قتل کرنے کی سازشوں کے الزامات عائد کرتے ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ فوج سے مقابلہ کر سکتے ہیں؟
عمران خان نے جواب دیا کہ ملکی حالات اب ویسے نہیں رہے جیسے 70 برس پہلے تھے یا پرویز مشرف کے مارشل لاء کے وقت تھے، اب حالات بدل چکے ہیں اور اب لوگ مارشل لاء کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے ساتھ تنازعات اس وقت شروع ہوئے جب انہوں نے ایکسٹینشن کیلئے موجودہ وزیراعظم میں دلچسپی لینا شروع کی جبکہ میں طاقتور عناصر کو قانون کی گرفت میں لانا چاہتا تھا۔
میزبان جرنلسٹ نے سوال پوچھا کہ آپ آج کل جمہوریت کی بات کرتے ہیں مگر آپ نے ماضی میں 2013 الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور پھر جب حکومت نے آپ کی جانب سے فوری طور پر نئے انتخابات کے مطالبہ کو رد کر دیا تو آپ نے وزیراعظم نواز شریف کے گھر پر حملہ کرنے کی دھمکی دی، یہ کیسی جمہوریت تھی؟ آپ کے حامیوں نے طاہر القادری کے ساتھ ملک کر پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی املاک پر حملہ کیا جس کی وجہ سے تین لوگ مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ آپ نے تشدد کو مزید ہوا دی، یہ کون سی جمہوریت تھی؟
عمران خان نے جواب دیا کہ 2014 میں ہم نے 126 دن کا پرامن احتجاج ریکارڈ کروایا، پرتشدد واقعات کی وجہ ایک اور جماعت کا ہمارے احتجاج میں شامل ہونا تھا جس کی وجہ سے ایک رات یہ احتجاج تشدد میں تبدیل ہو گیا حالانکہ میں نے اپنے 27 سالہ سیاسی کیریئر میں ہمیشہ پرامن احتجاج کی بات کی ہے۔
ٹم سبیسٹین نے افغانستان کے متعلق بات کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے 2021 میں طالبان کی حکومت کے قیام کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے حالانکہ دنیا طالبان کے خواتین پر مظالم سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے واقف ہے، آپ نے کبھی طالبان کی جانب سے خواتین پر تشدد اور دیگر مظالم کی مذمت نہیں کی، کیا آپ کی رائے تبدیل ہو چکی ہے یا آپ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ طالبان افغانستان میں آزادی لائے؟ کیا آپ کے کوئی اصول ہیں؟
سابق وزیراعظم نے جواباً کہا کہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں اپنی تقریر میں استعمار کی ذہنی غلامی کے خلاف بات کر رہا تھا اور غلامی سے آزادی کی بات میں نے تعلیم کے حوالہ سے کی تھی، میرے بیانات طالبان کے متعلق نہیں تھے مگر انہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا، میری حکومت کی تمام پالیسی صرف پاکستان کے عوام کے مفادات کیلئے تھی۔
میزبان جرنلسٹ نے سوال کیا کہ آپ موجودہ حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کرتے ہیں حالانکہ آپ کی اپنی حکومت کو انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آپ کی حکومت میں انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا، حتیٰ کہ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی تحفظات کا اظہار کیا، آپ اس پر کیا کہیں گے؟
تحریکِ انصاف کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے ساتھ کھڑا رہا ہوں، اگر میری حکومت میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو وہ حکومتی پالیسی کا حصہ نہیں تھیں، ہم نے جمہوریت کو مضبوط کرنے اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کیلئے کام کیا۔
ڈی ڈبلیو کے جرنلسٹ نے استفسار کیا کہ ہیومن رائٹس واچ اور پاکستانی انسانی حقوق کمیشن نے آپ کی حکومت کو میڈیا کو کنٹرول کرنے اور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کے خلاف کریک ڈاؤن جیسے اقدامات پر تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ آپ کی حکومت پر سیاسی مخالفین کو وکٹمائز کرنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں، آپ ان الزامات پر کیا کہیں گے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس اپنے الزامات کو ثابت کرنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، اگر پاکستان میں 10 ایسے واقعات رونما ہوئے تو میری حکومت ان میں سے کسی ایک کی ذمہ دار ہو گی جبکہ باقی سب کی ذمہ داری سیکیورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے۔ موجودہ حالات نسبتاً زیادہ تشویشناک ہیں، صحافیوں کو اغواء کیا جا رہا ہے، میڈیا کو کنٹرول کیا گیا ہے اور ٹی وی پر میرا نام تک لینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔