اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کی سماعت کے دوران مسلم لیگ ضیا کے صدر اعجاز الحق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں ضیا الحق کو صدرِ پاکستان نہیں مانتا۔
فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کے دوران جب اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اعجاز الحق کے وکیل نے بھی نظرِ ثانی واپس لینے کیلئے بیانِ حلفی کے ساتھ جواب جمع کرانے کا کہا ہے تو اعجاز الحق کے وکیل نے اٹارنی جنرل کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نظرِ ثانی واپس لینے کا نہیں کہا۔
اعجاز الحق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اعجاز الحق نے صرف اتنا کہا ہے کہ ان کا نام فیصلے سے حذف کیا جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اعجاز الحق کا نام صرف انٹیلی جینس ایجنسیز کی رپورٹ کو قوٹ کرتے ہوئے لکھا گیا ورنہ فیصلے میں اعجاز الحق کا نام شامل نہیں ہے۔
اسی گفتگو کے دوران جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اعجاز الحق ایک آرمی چیف ضیا الحق کے بیٹے ہیں تو اعجاز الحق کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کے والد صدرِ پاکستان بھی تھے، اعجاز الحق کے وکیل کی اس بات پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ”میں ضیا کو صدرِ پاکستان نہیں مانتا، بندوق کے زور پر کوئی صدر نہیں بن سکتا، اِس عدالت میں دوبارہ ضیا کو صدر مت کہیے گا“۔
سابق فوجی آمر ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق کے وکیل نے کہا کہ آئین میں درج ہے کہ ضیا الحق صدر تھے، اِس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ضیا الحق نے آئین میں لکھوایا تھا کہ میں پانچ سال کیلئے صدر ہوں۔