اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جسٹس اعجاز الاحسن کو ان کے الزامات کے جواب میں لکھے گئے خط کا متن (اردو)؛
ڈئیر سر
آپ نے الزام لگایا ہے کہ بینچز کی تشکیل کیلئے آپ سے مشاورت نہیں کی گئی، میرے دروازے میرے تمام ساتھیوں کیلئے ہمیشہ کھلے ہیں، میں انٹرکام اور سیل فون کے ذریعہ بھی دستیاب ہوں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ نہ تو مجھ سے بات کرنے آئے اور نہ ہی انٹرکام یا سیل فون کے ذریعہ اپنے خدشات کا اظہار کرنے کیلئے مجھ سے رابطہ کیا۔
آپ کا خط موصول ہوتے ہی میں نے آپ کو انٹرکام پر کال کی جو موصول نہ کی گئی اور اس کے بعد میں نے اپنے عملہ کو آپ کے دفتر سے رابطہ کرنے کا کہا لیکن معلوم ہوا کہ آپ جمعہ کی دوپہر کے اوائل میں مقررہ وقت سے پہلے ہی لاہور روانہ ہو گئے تھے، ہمیں ساڑھے چار دن نہیں بلکہ چھ دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔
ایک جج کی بنیادی اور پہلی ذمہ داری عدالتی کام میں شرکت کرنا ہے اور اسی لیے میں نے اس روز پاس ہونے والے تمام احکامات کو تحریر ہونے، ان کی جانچ پڑتال ہونے اور پھر دستخط ہونے کے بعد کمیٹی کا اجلاس بلا لیا تھا اور یہ جمعہ کی دوپہر تک ہونا تھا، آپ کی درخواست مانتے ہوئے کمیٹی کی میٹنگز کیلئے جمعرات کا دن مقرر کر دیا گیا جو کہ میں اب سمجھتا ہوں کہ شاید ایک غلطی تھی۔
اگر میں آپ سے یا جسٹس سردار طارق مسعود سے مشورہ نہیں کرنا چاہتا تھا تو کیا میں مشاورت کے اس عمل کی حمایت کرتا اور اس کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اوپر لاگو کرتا جب ایک ایسے بینچ نے ایکٹ کی کارروائی کو معطل کر دیا تھا جس میں آپ بھی شامل تھے؟ میں آپ کو اپنا وہ پہلا حکم نامہ یاد دلاتا چلوں جو میں نے 18 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد دستخط کیا تھا؛
“چیف جسٹس سپریم کورٹ میں چیلنج کیے گئے (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے پیشِ نظر، چونکہ یہ معاملہ زیرِ سماعت ہے، اپنے دو سینیئر ساتھیوں یعنی جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کے ساتھ بینچز کی تشکیل اور مقدمات کے تعین کے حوالہ سے مشاورت کریں گے جس پر دونوں نے اتفاق کیا ہے”۔
اور اگر میں ان فیصلوں کی پابندی نہیں کرنا چاہتا تھا جو ہم نے کمیٹی کی میٹنگز میں طے کیے تھے تو کیا میں اس کی ورکنگ یا اس کے فیصلوں کو منٹ کرتا اور پھر انہیں سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرتا؟
اس سے پہلے کہ میں آپ کے بلاجواز الزامات پر غور کروں، میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ کمیٹی کا پہلا اجلاس آپ کی عدم دستیابی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا، دوسرا اجلاس اس لیے نہیں ہو سکا کہ آپ ہانگ کانگ میں ایک کانفرنس میں شریک تھے، پھر اگلی جمعرات (9 نومبر 2023) کو عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا اور آخری جمعرات (16 نومبر 2023) کو ہمارے کولیگ کی خرابیِ صحت کے باعث کمیٹی کا اجلاس نہ ہو سکا تھا اور آپ نے اجلاس کو آئندہ ہفتے تک ملتوی کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ میں اپنی جانب سے ہر وقت دستیاب رہا ہوں، میں نے کبھی بھی میٹنگ ملتوی نہیں کی کیونکہ یہ میرے لیے تکلیف دہ تھا اور میں نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو پورا موقع دیا ہے۔
فوجداری اور دیوانی مقدمات کیلئے دو باقاعدہ بینچز، جو کہ سردیوں کی تعطیلات تک کام جاری رکھنے والے اکیلے بینچز تھے، انہیں منٹ کیا گیا (26 اکتوبر 2023، سیریل نمبر 3) اور آپ کے کیس کے ریفرنس کیلئے دوبارہ بنایا گیا۔
ریگولر فوجداری اور دیوانی بینچز:
تین معزز ججز پر مشتمل دو ریگولر بینچز زیرِ التواء دیوانی اور فوجداری مقدمات کو تاریخ وار ترتیب سے سنیں گے (یعنی پہلے دائر کیے گئے مقدمات کو پہلے مقرر کیا جائے گا) یہ باقاعدہ بینچز درج ذیل پر مشتمل ہیں:
فوجداری اپیلوں اور جیل کی درخواستوں کی سماعت کیلئے باقاعدہ فوجداری بینچ:
جسٹس سردار طارق مسعود
جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ اے ملک
سول اپیلوں کی سماعت کیلئے باقاعدہ سول بینچ؛
جسٹس منیب اختر
جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی
مذکورہ بینچز موسم سرما 2023 کی تعطیلات تک جاری رہیں گے۔
جہاں تک نئے عدالتی روسٹر کے اجراء کا تعلق ہے تو اس میں یہی ضروری تھا کیونکہ کچھ ججز دستیاب نہیں تھے، آپ اور جسٹس یحییٰ آفریدی ہانگ کانگ میں ایک کانفرنس میں شریک تھے، جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنی بیٹی کی شادی کی وجہ سے چھٹی لے رکھی تھی اور پھر وہ علیل ہو گئے، جسٹس مظہر علی اکبر نقوی کبھی بھی جمعہ کو دستیاب نہیں ہوئے بلکہ آخری وقت میں رجسٹرار کو اپنی عدم دستیابی کی اطلاع کر دیتے ہیں۔
میں آپ کو یہ بھی یاد دلا سکتا ہوں کہ جسٹس نقوی آپ کے ساتھ بینچ کے رکن تھے لیکن بینچ کی تشکیل کو تبدیل کرتے ہوئے آپ نے مجھے بتایا کہ چونکہ ان کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ہے لہذا آپ ان کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیں گے۔
بینچز کا آئین بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر جج کے ساتھ یکساں اور احترام کے ساتھ برتاؤ کیا جاتا ہے اور خصوصی بینچز مخصوص مقدمات کیلئے اور ججز کو شامل کرنے یا خارج کرنے کیلئے نہیں بنائے جاتے۔
آپ کے الزامات ریکارڈ اور حقائق کے برعکس ہیں۔
بہر حال اگر آپ کے پاس بینچز کی تشکیل نو کیلئے کوئی تجاویز ہیں تو برائے مہربانی وہ پیش کریں، میں سپریم کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود سے درخواست کر کے کمیٹی کا اجلاس طلب کروں گا اور آپ لاہور کی سپریم کورٹ رجسٹری میں ویڈیو لنک کے ذریعہ بآسانی شرکت کر سکتے ہیں۔
آپ کا مخلص
قاضی فائز عیسیٰ