اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کو براہِ راست نشر کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے استفسار کیا کہ آپ کا کیا مؤقف ہے کہ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کا فیصلہ؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ وہ وفاق کا بنایا ہوا قانون ہے اور عدالت سے درخواست ہے کہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا کہ کیا تمام ایڈووکیٹ جنرلز اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں؟
اس پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بارے میں اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ میں کیا فرق ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل باسٹھ اراکین کی اہلیت اور آرٹیکل تریسٹھ نااہلی سے متعلق ہے جبکہ آرٹیکل باسٹھ میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ مدت عدالت نے دی ہے، جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تب تک تاحیات نااہلی کی ڈیکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی لاگو ہو چکا ہے جبکہ اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوالات اٹھائے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں رد و بدل ممکن ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے کے فیصلے کو ختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی؟ کیا آئین میں جو لکھا ہوا ہے اس کو قانون سازی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ جب قتل اور غداری جیسے سنگین جرائم میں کچھ عرصہ کے بعد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں تو پھر معمولی وجوہات کی بناء پر تاحیات نااہلی غیر مناسب نہیں لگتی؟
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید سوالات اٹھائے کہ ایک شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہو جاتی؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ سزا کاٹ لینے کے بعد بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا جا سکتا؟ آئین میں ہر جرم کی سزا متعین کی گئی ہے، اگر کاغذاتِ نامزدگی میں غلط بیانی کی گئی اور ایک الیکشن کیلئے نااہلی ہو گئی تو وہ سمجھ آتی ہے لیکن یہ تاحیات نااہلی کیسے ہو گئی؟
میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواستگزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ میں نے 2018 میں درخواست دائر کی جب باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا تھا، اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہو چکا ہے جس کے بعد میں تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کچھ شقیں تو حقائق سے متعلق ہیں اور وہ آسان ہیں لیکن کچھ شقیں مشکل ہیں جیسے اچھے کردار والی شق، اسلامی تعلیمات کا اچھا علم رکھنا بھی ایک شق ہے، معلوم نہیں کہ کتنے لوگ یہ ٹیسٹ پاس کر سکیں گے؟ الیکشن ایکٹ کی یہ ترمیم چیلنج نہیں ہوئی، جب ایک ترمیم موجود ہے تو ہم پرانے فیصلے کو چھیڑے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی شخص حلفیہ طور پر کہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردار کا مالک ہے؟ اگر 2002 میں قائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب غیر منتخب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہو گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس فوجی آمر نے 1985 میں آئین کو روندا اسی نے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو آئین میں شامل کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر مہر لگائی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کر سکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف صوبوں کے مابین تنازعات پر ڈیکلریٹو فیصلہ دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دورانِ سماعت ریمارکس دیئے کہ اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلٰی کردار کا مالک نہیں ٹھہرایا جا سکتا، آرٹیکل باسٹھ کی وہ ذیلی شقیں مشکل پیدا کرتی ہیں جو اہلیت سے متعلق ہیں، صادق اور امین کے الفاظ کوئی مسلمان اپنے لیے بولنے کا تصور نہیں کر سکتا، کردار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسراف کرنے والا نہ ہو لیکن ہم تو روزانہ بجلی و پانی کا بھی اسراف کرتے ہیں، کیا اچھے کردار کے بارے میں وہ ججز فیصلہ کریں گے جو خود انسان ہیں؟
چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ آرٹیکل باسٹھ میں یہ شقیں کب شامل کی گئیں؟
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل باسٹھ آئینِ پاکستان 1973 میں سادہ تھا، آرٹیکل باسٹھ میں اضافی شقیں صدارتی آرڈر 1985 سے شامل ہوئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یعنی ضیاء نے یہ کردار سے متعلق شقیں شامل کرائیں، کیا ضیاء الحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟ ستم ظریفی ہے کہ آئین کے تحفظ کی قسم کھا کر آنے والے خود آئین توڑ دیں اور پھر یہ ترامیم کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کر رہی ہے، یہ ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ہم ایک ہی بار حل کرنے جا رہے ہیں، کوشش ہے کہ 4 جنوری کو کیس کی سماعت مکمل کریں جبکہ مشاورت کے بعد عدالتی معاونین بھی مقرر کیے جا سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت 4 جنوری کو دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی ہے۔