راولپنڈی (تھرسڈے ٹائمز) — معروف صحافی منصور علی خان نے یوٹیوب پر اپنے پروگرام میں یہ انکشاف کیا ہے کہ چند روز قبل راولپنڈی میں ان کی ایک انتہائی اہم شخصیت کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے جبکہ منصور علی خان کے مطابق وہ شخصیت پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم ترین ادارہ کے سربراہ ہیں۔
منصور علی خان کا کہنا ہے کہ متذکرہ شخصیت جس ادارہ کے سربراہ ہیں وہ پاکستان کیلئے مرکزی کردار کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ پاکستان کے سیاسی افق اور دیگر تمام اہم ریاستی سطوح پر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اسی ادارہ کے گرد گھومتا ہے۔
معروف صحافی نے اس ملاقات کو ایک ادارہ سے ملاقات قرار دیا ہے کیونکہ ان کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم ترین ادارہ کے سربراہ نے اس ملاقات کے دوران کہا کہ آپ کسی شخص سے بات نہیں کر رہے بلکہ آپ کے سامنے ایک ادارہ بیٹھا ہے اور یہ کہ آپ سے ایک مکمل ادارہ مخاطب ہے۔
سینئر جرنلسٹ کی جانب سے اس ملاقات میں “ادارہ” سے چند سوالات کیے گئے جبکہ “ادارہ” کی جانب سے ان سوالات کے جواب میں ایک واضح اور ٹھوس مؤقف اختیار کیا گیا۔
منصور علی خان کی جانب سے سب سے پہلے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں عام انتخابات ہو رہے ہیں؟
پاکستان کے اہم ترین ادارہ کے سربراہ کی جانب سے جواب دیا گیا کہ انتخابات 8 فروری کو ہوں گے، انتخابات کے انعقاد سے متعلق کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اور اس بارے میں شبہات پیدا کرنا کوئی اچھا عمل نہیں ہے، انتخابات بہرصورت ہوں گے اور انہیں سبوتاژ کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
پاکستان کی سیاست میں عمران خان کے سٹیک سے متعلق سوال پوچھا گیا تو متذکرہ شخصیت کا کہنا تھا کہ عمران خان پاکستان کی سیاست میں کہیں نظر نہیں آ رہے، حتیٰ کہ مستقبل میں بھی عمران خان ملکی سیاست میں کہیں نظر نہیں آ رہے۔
جرنلسٹ نے کہا کہ ایسی باتیں ہم پہلے بھی سن چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے بارے میں بھی کہا گیا کہ ان کے ناموں پر کراس لگا دیا گیا ہے اور یہ کہ شریف خاندان کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔
انتہائی اہم شخصیت کی جانب سے جواب دیا گیا کہ اس بارے میں آپ کے شکوک و شبہات درست ہیں کیونکہ آپ ایسی باتیں پہلے بھی سن چکے ہیں اور پھر ان (شریف خاندان) کی سیاست میں واپسی بھی ہو چکی ہے لیکن اب آگے آپ خود بخود دیکھ لیں گے، موجودہ حالات سے بھی آپ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں اور آنے والا وقت بھی آپ کو بتا دے گا کہ عمران خان اب ملکی سیاست میں کہیں نہیں ہوں گے۔
صحافی نے سوال کیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ایک پوری مہم چلائی گئی، نواز شریف کو چور ڈاکو قرار دیا گیا اور یہ تمام دعوے وہ شخص کیا کرتے تھے جو آپ سے پہلے یہاں موجود تھے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
متذکرہ شخصیت کا کہنا تھا کہ جو کچھ بھی ہوا اور جیسے بھی ہوا بالکل غلط ہوا، وہ سب نہیں ہونا چاہیے تھا، وہ سب سیلف پروموشنز (انفرادی ترقیاں) حاصل کرنے کیلئے کیا گیا اور اس کیلئے پورا سسٹم ہلا کر رکھ دیا گیا، ماضی میں ادارے سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں لیکن اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان غلطیوں کو ٹھیک کیا جائے گا کیونکہ ان غلطیوں کی وجہ سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے جبکہ یہ احساس مکمل طور پر موجود ہے کہ ادارہ کو اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔
پاکستان کے اہم ترین ادارہ کے سربراہ نے مزید کہا کہ اب یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ ادارہ کی جانب سے اپنی پوزیشن بالکل واضح رکھی جائے گی اور اس کے اندر کوئی گرے ایریا نہیں ہو گا بلکہ یہ سیاہ یا سفید ہو گا، اب کوئی لگی لپٹی نہیں بلکہ سیدھی بات کی جائے گی، گزشتہ کئی سالوں میں سیاستدانوں کو بدنام کرنے اور ان کی تذلیل کرنے کا سلسلہ جاری رہا لیکن اب یہ سب مزید نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی جمہوریت کے اندر ہے، ہم پوری طرح جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور آئندہ انتخابات پاکستان کو اسی جمہوری عمل کی جانب لے کر جا رہے ہیں، یہ پاکستان کے عوام کی مرضی ہے کہ وہ جس کو چاہیں ووٹ دیں اور جس مرضی جماعت کو آگے لائیں کیونکہ جمہوریت ہی سب کچھ ہے۔
معروف صحافی کی جانب سے سانحہ 9 مئی کے مجرموں کو قرار واقعی سزا سے متعلق پوچھا گیا تو جواب ملا کہ پاکستان انتخابات کی طرف جا رہا ہے اور ماحول پولیٹیکلی چارجڈ (سیاسی طور پر متحرک) ہے، ہم نہیں چاہتے کہ معاملات کو اس طرف لے جائیں جس سے آگ اور پولرائزیشن پھیلے، عمران خان نے پاکستان کو جو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے وہ پولرائزیشن ہے، عمران خان نے ملک کو تقسیم کر دیا ہے، عمران خان اور تحریکِ انصاف کی وجہ سے طلباء و طالبات، ججز، صحافیوں اور سیاستدانوں سمیت ہر طبقہِ فکر تقسیم کا شکار ہے، اب بھائی کو بھائی اور بیٹے کو باپ کا لحاظ نہیں رہا، ایک سوشل فیبرک ہوتا ہے جس میں ایک دوسرے کی عزت و احترام کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن عمران خان کی پولرائزیشن سے کوئی نہیں بچ سکا جبکہ اس سب کیلئے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔
اہم ترین ملکی ادارہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایسا ہر گز نہ سمجھا جائے کہ ہم نے 9 مئی کو بھلا دیا ہے، یہ نہ سمجھا جائے کہ 9 مئی کی پلاننگ کرنے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو بھلا دیا جائے گا، انہی کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا کیونکہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، ادارہ کبھی اس واقعہ کو بھولنے نہیں دے گا۔
جرنلسٹ نے سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کے بیانیہ کی ترویج کرنے والوں کو اٹھائے جانے اور غائب کرنے کے بارے میں سوال کیا کہ ایسا کیوں کیا گیا اور کیا آئندہ بھی یہی پالیسی چلے گی؟
متذکرہ شخصیت کا یہ کہنا تھا کہ ہم اس کو کاؤنٹر پراڈکٹیو کے طور پر محسوس کرتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس نے جو بولنا ہے وہ بولتا رہے، ہم اب کسی کو نہیں روکیں گے، اب فون کالز بھی نہیں ہوں گی کیونکہ فون کالز سے اگلا بندہ سمجھتا ہے کہ وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، اب جس کو جو کچھ بولنا ہے وہ بولتا رہے لیکن سچ بولے اور معاملات کو حقائق کے برعکس بیان نہ کرے، جھوٹ بول کر معاشرے میں آگ نہ پھیلائی جائے۔
ادارہ سے متعلق ہونے والے وی لاگز اور خاموش مجاہدین جیسی باتوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ادارہ کے اندر کیا ہو رہا ہے یہ صرف ادارہ کو معلوم ہے، باہر کا کوئی شخص کچھ بھی نہیں جانتا، جو ریٹائر ہو چکا ہے وہ بھی نہیں جانتا، جو موجود نہیں ہے اس کو کچھ پتہ نہیں ہے، ادارہ کا انٹرنل میکنزم ادارہ کو ڈرائیو کر رہا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کس طرح چلنا ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمارے پاس معلومات نہیں ہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، ہمیں تمام حالات کا مکمل ادراک ہے۔
پاکستان کے اہم ترین ادارہ کے سربراہ نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ تحریکِ انصاف کی مکمل توجہ فی الحال خیبرپختونخوا پر ہے، تحریکِ انصاف وفاق اور پنجاب کی بجائے خیبرپختونخوا پر فوکس کیے ہوئے ہے تاکہ اس کو اپنے لیے بچا سکے، ہمیں مکمل ادراک ہے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا پلاننگ ہے، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، انتخابات ہونے دیں، لوگوں کو حقِ رائے دہی استعمال کرنے دیں اور پھر جو بھی حکومتیں بنتی ہیں وہ سب ہم دیکھ لیں گے۔
صحافی نے سپریم کورٹ کی جانب سے سابق آرمی جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزا کو برقرار رکھنے کے فیصلے پر ادارہ کی خاموشی کے بارے میں اپنے سوال کے جواب کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ادارہ کو عدالتِ عظمٰی کے اس فیصلے پر سنجیدہ نوعیت کے تحفظات ہیں لیکن چونکہ ابھی ماحول سیاسی طور پر گرم یا متحرک ہے لہذا ادارہ کی جانب سے ردعمل کو روک لیا گیا ہے۔
متذکرہ شخصیت سے جب سوال پوچھا گیا کہ کیا آنے والے دنوں میں الیکشن سے قبل کوئی پریس کانفرنس ہو سکتی ہے تو اس پر واضح طور پر انکار کیا گیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور ہمارا پریس کانفرنس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اہم ترین ملکی ادارہ کے سربراہ نے تحریکِ انصاف کے انتخابی نشان “بلا” کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ معاملہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے اور عدالتیں اس کو دیکھ رہی ہیں، وہ جو مرضی فیصلہ دیں کیونکہ اس بارے میں عدالتیں بہتر جانتی ہیں۔