اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کی جانب سے صحافیوں کو ججز پر تنقید کی وجہ سے بھیجے گئے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم جاری کر دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میں تو اپنے ادارہ پر پہلے بات کروں گا، کب تک ماضی کی غلطیاں دوہرائیں گے؟ مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے میری غلطی معلوم ہو گی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ دنیا میں زندہ قومیں ماضی سے سبق سیکھتی ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ بس آگے بڑھو مٹی پاؤ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دورانِ سماعت صحافی اسد طور سے سوال پوچھا کہ کیا وہ لوگ پکڑے گئے جنہوں نے آپ کو مارا تھا؟ کیا آپ ان لوگوں کی شکلیں پہچان سکتے ہیں؟
صحافی اسد طور نے جواب دیا کہ جنہوں نے تشدد کیا وہ پکڑے نہیں گئے تھے، آج بھی دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا تشدد کرنے والوں کے سکیچز بنائے گئے تھے؟
صحافی اسد طور نے جواب دیا کہ سکیچ بنا تھا لیکن جیو فینسنگ نہیں ہوئی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اسد طور کا کیس سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے یا ابھی بھی چل رہا ہے؟ اٹارنی جنرل اسد طور کے کیس سے متعلق جامع اور مفصل رپورٹ دیں۔
صحافی اسد طور نے کہا کہ میں ازخود نوٹس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ نہ کریں لیکن ہم خود اس کیس کو دیکھیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ صحافی اگر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں تو کریں لیکن کسی کو تشدد پر اکسانے یا انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے، کسی صحافی یا عام عوام کو تنقید سے نہیں روک سکتے، سپریم کورٹ پر تنقید کے حوالہ سے کوئی مقدمہ درج نہیں ہو گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اگر آرٹیکل 19 کا خیال ہے تو آرٹیکل 14 کا بھی کچھ خیال کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بہت عجیب بات ہے کہ تھمبنیل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، فیئر تنقید میں مسئلہ نہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ غلط ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو یہ غلط ہے، مجھے تو گالم گلوچ سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن حدود کا خیال رکھا جانا چاہیے۔
صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ وفاقی حکومت سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جے آئی ٹی کس کے کہنے پر بنائی گئی کیونکہ اس پر بہت قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم ان کو بھی حقوق دلائیں گے جو ہمارے سامنے نہیں ہیں، خود پر تنقید کو ویلکم کرتا ہوں، کچھ باتیں قائداعظم کی کر لیتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انہوں نے تو قائداعظم کا بھی مذاق اڑایا تھا۔
صحافی مطیع اللّٰه جان نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کا سوموٹو بھی مقرر کیا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہو سکتا ہے آئندہ سماعت پر ارشد شریف کا کیس بھی ساتھ ہی لگا دیں، ابھی کوئی ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جو اس کیس میں جاری احکامات سے متصادم ہو۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر تنقید ہونی چاہیے لیکن ججز کے خلاف من گھڑت کہانیاں نہیں بنانی چاہئیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹیلی ویژن کیلئے تو پیمرا کا ضابطہ اخلاق موجود ہے لیکن یوٹیوب کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ فتوے دینے والوں سے بدتر اور منفی سوچ کسی کی نہیں ہو سکتی، یہ نفرت پھیلاتے ہیں اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے، یہ اب اژدھے بن چکے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اٹارنی جنرل سے صحافیوں پر مقدمات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں مطیع اللّٰہ جان، اسد طور، عامر میر اور شفقت عمران کے علاوہ کون سے مقدمات ہیں، صحافیوں پر جو مقدمات درج ہوئے اس کا ریکارڈ دیا جائے، جو صحافیوں نے مقدمات درج کرائیں ان کا بھی سارا ریکارڈ دیا جائے، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور آئی جی پولیس جیسے افسران سے تفصیلات لی جائیں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو صحافیوں پر تشدد کے خلاف رپورٹ دو ہفتوں میں فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے۔