اللّٰه تعالیٰ کے آخری نبی سیدنا محمدﷺ کے جلیل القدر صحابی، نبی آخر الزماںﷺ کے رازداں، خاتم النبیینﷺ کے کاتبِ وحی، آقا محمدﷺ کے منظورِ نظر، عظیم المرتبہ انسان، بےمثال حکمران، فاتح عرب و عجم، محسنِ اُمَّتِ محمدﷺ، مجاہدِ اسلام، منافقین و مفسدین کیلئے قہرِ الٰہی کا پیغام، مؤمنین کیلئے راحتِ قلب و جان، ایمان والوں کے امیر و امام، خلیفۃ المؤمنین، خليفۃ الأموي الأول، آقا نبی کریمﷺ کی نویں رفیقۂ حیات یعنی ام المؤمنین سیدہ رملہؓ بنت ابی سُفیانؓ (أم حبيبہؓ) کے بھائی یعنی خال المؤمنين، تاریخِ اسلام کے عظیم الشان جرنیل، شمشیرِ حق، فاتح قبرص، فاتح روم، عالم و فقیہ، پیکرِ حلم و بردباری اور خاتم الانبیاءﷺ سے اپنے علم و عمل کیلئے بہترین دعائیں لینے والے امیرالمؤمنین معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ سے محبت و عقیدت بلا شک و شبہ ایمان کا لازمی جزو ہے۔
أبُو عَبدَ الرَّحمَن مُعاويَة بنُ أبي سُفيان بن حَرب بن أُمَيَّة بن عَبدِ شَمس بن عَبدِ مَناف القُرَشِيُّ ۔۔ سلسلہ نسب عَبدِ مَناف یعنی پانچویں پشت میں آقا نبی کریمﷺ سے جا ملتا ہے، آپؓ بعثتِ نبویﷺ سے پانچ برس قبل عرب کے مقدس شہر مکہ میں پیدا ہوئے، آپؓ کی کنیت أبُو عَبدَ الرَّحمَن ہے اور آپؓ کو رشتہِ نبوتﷺ کے تعلق سے احتراماً ’’خال المؤمنين‘‘ کہا جاتا ہے، آپؓ ظاہری طور پر فتح مَکَّہ کے موقع پر ایمان لائے مگر درحقیقت آپؓ اس سے قبل ہی اسلام قبول کر چکے تھے تاہم بعض مجبوریوں کی بناء پر اسے ظاہر نہ کیا تھا۔
اللّٰه تعالٰی نے سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ کو حُسْنِ خُلْق اور عَفو و دَرْگُزَر جیسی صفاتِ محمودہ سے نوازا تھا، لمبے قد اور سفید گوری رنگت والے سیّدنا معاویہؓ حساب و کتاب کے بڑے ماہر تھے، فصیحُ اللسان تھے، بردبار تھے اور باوقار آدمی تھے، آپؓ مختلف علوم و فنون سے آراستہ تھے، اللّٰه تعالٰی نے معاویہؓ کو علومِ دینیہ میں کامل دسترس اور کمالِ تَفَقُّہ عطا فرمایا تھا، آپؓ کی پوری زندگی علم و عمل کی زندگی تھی، آپؓ اس درجہ حَلِیم اور بُردبار تھے کہ آپؓ کا حِلم ضرب المثل بن گیا اور اس کے بغیر آپؓ کا تذکرہ نامکمل ہے۔
سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ اسلام لانے کے بعد مستقلاً آقا محمدﷺ کی خدمت میں مصروف رہے، آپؓ اس مقدس جماعت کے ایک رُکنِ رَکین تھے جسے آقاﷺ نے کتابتِ وحی کیلئے مامور فرمایا تھا، آقاﷺ پر جو وحی نازل ہوتی اسے معاویہؓ قلمبند کرتے تھے اور نبی کریمﷺ کے دربار سے جو خطوط و فرامین جاری ہوتے انہیں بھی معاویہؓ تحریر کرتے تھے، نبی کریمﷺ کے زمانہ میں کتابتِ وحی کا کام جتنا نازک تھا اور اس کیلئے جس احساسِ ذمہ داری، امانت و دیانت اور علم و فہم کی ضرورت تھی وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔
آقا محمدﷺ کی خدمت میں مسلسل حاضری، کتابتِ وحی، امانت و دیانت اور دیگر صفاتِ محمودہ کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے متعدد بار معاویہؓ کیلئے دعا فرمائی، حدیث کی مشہور کتاب ’’جامع الترمذي‘‘ کی ل روایت میں ہے کہ ایک بار آقا محمدﷺ نے معاویہؓ کو دعا دی اور فرمایا؛
اے اللّٰه۔۔ معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دیجیے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجیے۔
مسند أحمد کی ایک روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے معاویہؓ کو دعا دی؛
اے اللّٰه ۔۔ معاویہ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذابِ جہنم سے بچا۔
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد کے مطابق عمروؓ بن العاص بیان فرماتے ہیں کہ میں نے آقا نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا؛
اے اللّٰه ۔۔ معاویہ کو کتاب سکھا دیجیے اور شہروں میں اس کیلئے ٹھکانہ بنا دیجیے اور اس کو عذاب سے بچا لیجیے۔
آقا محمدﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی معاویہؓ کی امارت و خلافت کی پیشین گوئی فرما دی تھی اور اس کیلئے دعا بھی فرمائی تھی چنانچہ ’الإصابة في تمييز الصحابة‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک بار معاویہؓ نبی کریمﷺ کیلئے وضو کا پانی لائے، آپﷺ نے وضو فرمایا اور پھر معاویہؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا؛
اے معاویہ۔۔ اگر تمہارے سپرد امارت کی جائے تو تم اللّٰه سے ڈرتے رہنا اور انصاف کرنا۔
بعض روایات کے مطابق اس کے بعد نبی کریم (صلی اللّٰه علیہ وسلم) نے معاویہؓ سے ارشاد فرمایا؛
جو شخص اچھا کام کرے اس کی طرف توجہ کر اور مہربانی کر اور جو کوئی بُرا کام کرے اس سے درگزر کر۔
شمس الدّين الذَّهَبِيّؒ کی ’’تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام‘‘ کے مطابق ایک دن آقا محمدﷺ سواری پر سوار ہوئے اور معاویہؓ کو پیچھے بٹھایا جبکہ معاویہؓ کا پیٹ آپﷺ کے جسم مبارک کے ساتھ ملا ہوا تھا، آپﷺ نے دعا دی؛
اے اللّٰه ۔۔ اس کو علم سے بھر دے۔
البِدَايَةُ وَالنِهَايَة میں بیان کیا گیا ہے کہ سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ نے آقا محمدﷺ کے ہمراہ غَزوہ حُنَین میں شرکت کی اور آپﷺ نے معاویہؓ کو قبیلہ هوازن کے مالِ غنیمت میں سے سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی عطا فرمائی۔
ان احادیث سے آقا نبی کریم (صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم) کا سیدنا معاویہؓ سے تعلق اور سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ کی عزت و عظمت اور فضیلت بھی صاف ظاہر ہوتی ہے جبکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آقا محمدﷺ سیدنا معاویہؓ سے کتنی زیادہ محبت فرماتے تھے۔
آقا محمدﷺ کے وصال کے بعد سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ شام و دیگر علاقوں میں مصروفِ جہاد رہے، خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکرؓ الصدیق کے دورِ خلافت میں سیدنا معاویہؓ نے جنگِ یَمامَہ میں شرکت کی، سیدنا عمرؓ بن الخطاب نے اپنے دورِ خلافت میں سیدنا معاویہؓ کو شام کا گورنر مقرر فرمایا اور ایک ہزار درہم ماہانہ وظیفہ مقرر فرمایا، سیدنا معاویہؓ نے سیدنا عمرؓ کے دورِ خلافت میں چار سال شام کے گورنر کی حیثیت سے گزارے اور ان چار سالوں کے دوران سیدنا معاویہؓ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کیے۔
سیدنا عثمانؓ بن عفان خلافت کے منصب پر متمکن ہوئے تو انہوں نے معاویہؓ کو نہ صرف شام کی گورنری کے منصب پر برقرار رکھا بلکہ معاویہؓ کے حسنِ انتظام، تدبر اور سیاست سے متاثر ہوتے ہوئے حمص، قنسرين اور فلسطین کے علاقے بھی معاویہؓ کے ماتحت کر دیئے۔ سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت میں بارہ سال سے زائد عرصہ تک سیدنا معاویہؓ شام کے گورنر رہے اور اس عرصہ کے دوران بھی معاویہؓ اعلائے کلمۃ اللّٰه کے واسطے مصروفِ جہاد رہے، معاویہؓ نے 25 ہجری میں روم کی جانب جہاد کیا اور عموریہ تک جا پہنچے جبکہ راستے میں فوجی مراکز بھی قائم کیے۔
سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت میں معاویہؓ نے ان سے قبرص پر لشکر کشی کی اجازت طلب کی اور اصرار کیا تو سیدنا عثمانؓ نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ سیدنا معاویہؓ نے اسلام کی تاریخ میں پہلی بار بحری بیڑہ تیار کرایا اور صحابہؓ کرام کی ایک جماعت کے ہمراہ 27 ہجری میں قبرص کی جانب روانہ ہوئے، یہ اس لحاظ سے بھی نہایت عظیم سعادت ہے کہ آقا محمدﷺ نے پہلا بحری جہاد کرنے والوں کے حق میں جنت کی بشارت دی تھی، ’’صحيح البخاري‘‘ میں ہے کہ اللّٰه کے آخری نبی سیدنا محمدﷺ نے ارشاد فرمایا؛
میری اُمَّت میں وہ پہلا لشکر جو بحری جنگ لڑے گا اس نے اپنے اوپر جَنَّت واجب کر لی ہے۔
سیدنا معاویہؓ 27 ہجری میں قبرص کی جانب بحری بیڑہ لے کر روانہ ہوئے اور 28 ہجری میں معاویہؓ نے قبرص فتح کر لیا اور وہاں کے لوگوں پر جزیہ عائد کیا، سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ نے 33 ہجری میں افرنطینہ، ملطیۃ اور روم کے کچھ قلعے بھی فتح کر لیے۔
سیدنا عثمانؓ بن عفان کو 35 ہجری میں باغیوں کے ایک گروہ نے شہید کر دیا تو سیدنا علیؓ المرتضیٰ خلیفہ بنے اور پھر جنگِ صِفِّین اور جنگِ جمل جیسے واقعات پیش آئے، ان معاملات میں سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ کا واضح مؤقف تھا کہ عثمانؓ کو ظُلمًا شہید کیا گیا ہے لہذا قاتلوں سے قصاص لینے میں کسی طرح کی نرمی نہ برتی جائے اور یہ کہ قاتلوں سے نرمی برتنے، انہیں عہدوں پر مامور کرنے اور خلافت کے کاموں میں حصہ دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
معروف محدث، مفسر، فقیہ، مؤرخ اور امام ’’ابن كثير الدمشقي‘‘ لکھتے ہیں؛ سیدنا علیؓ و سیدنا معاویہؓ کے مابین اختلاف کے دوران أبو مسلم الخولانيؒ لوگوں کی ایک جماعت کے ہمراہ سیدنا معاویہؓ کے پاس پہنچے تاکہ انہیں سیدنا علیؓ کی بیعت پر آمادہ کر سکیں، انہوں نے سیدنا معاویہؓ سے کہا؛ آپ علیؓ سے جھگڑا کر رہے ہیں، کیا آپ کا خیال ہے کہ آپ علم و فضل میں علیؓ جیسے ہیں؟
سیدنا معاویہؓ نے جواب دیا؛ اللّٰه کی قسم میرا یہ خیال نہیں، میں جانتا ہوں کہ علیؓ مجھ سے بہتر ہیں، مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے بھی مجھ سے زیادہ مستحق ہیں لیکن کیا تم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ عثمانؓ کو ظُلمًا شہید کیا گیا ہے اور میں عثمانؓ کا چچا زاد بھائی ہوں اس لیے مجھے ان کے خون کا قصاص اور بدلہ لینے کا زیادہ حق ہے، تم جا کر علیؓ سے یہ بات کہو کہ قاتلینِ عثمانؓ کو میرے سپرد کر دیں، میں خلافت علیؓ کے سپرد کر دوں گا۔
أبو مسلم الخولانيؒ و دیگر افراد علیؓ کے پاس آئے اور اس معاملہ پر بات کی لیکن سیدنا علیؓ نے قاتلینِ عثمانؓ کو سیدنا معاویہؓ کے حوالہ نہ کیا، اس موقع پر اہلِ شام نے سیدنا معاویہؓ کے ہمراہ قتال کا فیصلہ کر لیا۔
سیدنا علیؓ المرتضٰی کی شہادت کے بعد ان کے بڑے بیٹے سیدنا حسنؓ منصبِ خلافت پر براجمان ہوئے، ’’شمس الدین ذہبی‘‘ لکھتے ہیں کہ منافقین نے سیدنا حسنؓ کو بھی بھڑکانے کی کوششیں کیں تاہم وہ مفسدین کے کہے میں نہ آئے اور 41 ہجری میں سیدنا معاویہؓ سے صلح کر کے خلافت معاویہؓ کے سپرد کر دی اور سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ نے سیدنا حسنؓ کیلئے سالانہ دس لاکھ درہم وظیفہ مقرر فرما دیا۔
سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ منصبِ خلافت پر فائز ہوئے تو مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ ہوا اور فتوحات کا سلسلہ پوری قوت کے ساتھ جاری رہا، سیدنا معاویہؓ نے سیدنا عثمانؓ کے زمانہ میں ہی بحری فوج قائم کر لی تھی اور اپنے عہدِ خلافت میں بحری فوج کو بہت ترقی دی، مصر و شام کے ساحلی علاقوں میں بہت سارے جہاز سازی کے کارخانے قائم کیے، ایک ہزار سات سو جنگی جہاز رومیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہتے تھے، اس عظیم الشان بحری طاقت سے قبرص اور روڈس جیسے اہم یونانی جزیرے فتح کیے اور پھر قسطنطنیہ کے حملے میں بھی اسی بحری بیڑے سے کام لیا۔
سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ نے سیدنا عمرؓ کے زمانہ میں قائم ہونے والے ڈاک کے محکمہ کو اپنے عہدِ خلافت میں منظم کیا، اس کی توسیع کی اور اس کا جال تمام حدودِ سلطنت میں پھیلا دیا، ایک نیا محکمہ دیوانِ خاتم کے نام سے قائم کیا، خانہ کعبہ کی خدمت کیلئے متعدد غلام مقرر فرمائے اور بیت اللّٰه پر دیبا و حریر کا بہترین غلاف چڑھایا، سیدنا معاویہؓ کے عہدِ خلافت ہر اعتبار سے ایک کامیاب دور تھا، مسلمان خوشحال تھے جبکہ سلطنت میں امن قائم تھا، رعایا کی بہتری اور دیکھ بھال کیلئے متعدد اقدامات کیے گئے جن میں ایک انتظام یہ تھا کہ ہر قبیلہ اور ہر قصبہ میں آدمی مقرر کیے گئے جو بچوں کی پیدائش اور مہمان کی آمد سے متعلق بتاتے تھے اور پھر اس بچے یا مہمان کا نام لکھ کر بیت المال سے اس کیلئے وظیفہ جاری کیا جاتا تھا۔
سیدنا معاویہؓ نے رفاہِ عامہ کیلئے نہریں کھدوائیں، جو نہریں بند ہو چکی تھی انہیں جاری کروایا، مساجد تعمیر کرائیں اور عامۃ المسلمین کی بھلائی کیلئے دیگر کئی اقدامات کیے، آپؓ نے ایک زبردست اور مؤثر خارجہ پالیسی تشکیل دی، آپؓ کے عہدِ خلافت میں غزوہ سجستان پیش آیا اور سندھ کا کچھ حصہ مسلمانوں کے زیرِ نگیں آیا، ملک سوڈان فتح ہوا، کابل فتح ہوا اور مسلمان ہندوستان میں قندابیل کے مقام تک پہنچ گئے، افریقہ پر لشکر کشی کی گئی اور ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے زیرِ نگیں آیا، صقلیہ پر حملہ کیا گیا اور کثیر تعداد میں مالِ غنیمت حاصل ہوا، مسلمان نہرِ جَیحُون عبور کرتے ہوئے بخارا تک پہنچ گئے۔
سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ 60 ہجری میں عمر کی اٹھترویں منزل سے گزر رہے تھے جب آپؓ کی طبیعت ناساز ہوئی اور پھر مزید خراب ہوتی چلی گئی، طبیعت کی یہ ناسازی بالآخر مرضِ وفات میں تبدیل ہو گئی، سیدنا معاویہؓ نے وصیت فرمائی؛ وہ کپڑا جو آقا محمدﷺ نے مجھے عنایت فرمایا تھا میرے کفن کے ساتھ رکھ دینا اور آپﷺ نے ایک بار اپنے بال اور ناخن مبارک کاٹے تو میں نے انہیں جمع کر کے رکھ لیا تھا، انہیں میری آنکھ، میرے منہ اور سجدے کی جگہوں پر رکھ دینا اور پھر ارحم الراحمین کے حوالہ کر دینا۔
سیدنا معاویہؓ بن ابی سُفیانؓ نے یہ وصیت فرمائی اور اس کے بعد مرض بڑھتا گیا، یہاں تک کہ عِلم، حِلم اور تَدَبُّر کا یہ آفتاب دمشق میں 22 رجب کو ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا، آپؓ کی نمازِ جنازہ حضرت ضحاکؓ بن قیس نے پڑھائی اور دمشق میں ہی باب الصغیر میں آپؓ کی تدفین ہوئی۔