پاکستان کے ایک جانے مانے میڈیائی شخص نے سوشل میڈیا پر عمران خان کو سائفر کیس میں سنائی جانے والی دس سال قید بامشقت کی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نظام کا بھونڈا اور بھدا چہرہ مزید بے نقاب ہوا اور یہ کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ گزشتہ چند سالوں میں ہمارے ملک کے نام نہاد دانشور اور نامور میڈیائی پرسنز پر بالآخر اس نظام کا یہ بھونڈا پن، یہ بھدا پن اور بدبودار چہرہ واقعی بےنقاب ہو گیا ہے تو یہ بڑے اچنبھے کی بات ہو گی۔
ایک عام سیاسی سوچ رکھنے والا عام پاکستانی شہری بھی 76 سالوں سے اس نظام کی بدبو کو محسوس کرتا آ رہا ہے، ایک عام سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ پچھلے چھہتر سالوں میں اسی بدبودار نظام کے تحت عوامی سطح پر کتنے منتخب وزرائے اعظم گھر بھیجے گئے، ایک عوامی نمائندے کو کمزور سے کیس میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا، ایک قومی لیڈر کو سیاسی جلسے کے دوران گولی مار کر ناحق قتل کر دیا گیا، قومی سطح کے سیاسی راہنماؤں کو بےبنیاد مقدمات میں غیرآئینی سزائیں دلوائی گئیں، انھیں ملک بدر کیا گیا، دس دس سال سیاست سے باہر رکھا گیا، ان کے خلاف جھوٹے مقدمات میں مضحکہ خیز سزائیں سنا کر ان کی سیاست کو ختم کرنے کے دعوے کئے گیے۔
چند برس پہلے تک — 2018 تک — یہ کھیل اپنے جوبن پر تھا لیکن تب خان صاحب اور ان کے حواریوں نے اسی بدبودار نظام کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو غدار قرار دیا تھا، تب اسی بھونڈے اور بھدے نظام کے سب سے بڑے بینیفیشری عمران خان تھے، تب خان صاحب اسی بدبودار نظام کے تحت سب سے بڑا سیاسی فائدہ اٹھا کر خود کو زبردستی متعارف کروائے جانے پر فخر محسوس کرتے تھے، تب اسی بھونڈے اور بھدے نظام کے کندھوں پر جھول کر خان صاحب نے خوشی خوشی اقتدار کا طوق اپنے گلے میں ڈالا، تب اسی بدبودار نظام کو قبول کرتے ہوئے ان میڈیائی پرسنز نے عمران خان کی مقبولیت کا راگ الاپنا شروع کر دیا، اسے تبدیلی کا نام دیا اور عمران خان کی 23 سالہ جدوجہد کا ثمر قرار دیا گیا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ محض چند برس پہلے تک جب آپ کو یہی بدبودار نظام سوٹ کر رہا تھا اور آپ اسی نظام کے سب سے بڑے بینیفیشری تھے تو کیا اقتدار ملنے کے بعد آپ نے اس نظام میں بہتری لانے کی کوشش کی؟ کیا اقتدار میں ہوتے ہوئے عمران خان نے کبھی اس بھونڈے نظام کو بدلنے پر بات کی؟ کیا ان میڈیا پرسنز نے اس بدبودار نظام کی بدبو کم کرنے کے لئے اپنی پسندیدہ حکومت سے اصلاحات کا مطالبہ کیا؟ اگر ایسا کچھ نہیں کیا تو پھر اب رونا کس بات کا؟ جب بااختیار ہوتے ہوئے آپ نے اس نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کی اور اس نظام کے خلاف کوئی کام نہیں کیا تو اب جب اس نظام نے آپ کی عیاشیوں کو اچک لیا ہے تو یہ شور کیوں؟
کاش آپ نے تب قومی سطح کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس بھونڈے نظام کے خلاف آواز اٹھائی ہوتی، کاش آپ نے جان بوجھ کر اس نظام کو پروموٹ نہ کیا ہوتا، کاش تب عمران خان اسی نظام سے فائدہ اٹھا کر ملک اور جمہوریت کا نقصان کو اتنا زیادہ نقصان نہ پہنچاتے، آج خان صاحب کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ اور مکافاتِ عمل ہے۔
اب تو یہ لوگ بار بار پوچھتے ہیں کہ یہ سلسلہ کہاں رکے گا، عرض یہ ہے کہ جان لیجیے یہ سلسلہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، پُرامید رہیے کہ اس بدبودار نظام کو مزید بدبودار کرنے والے اپنے انجام سے کچھ سیکھنے والے ہیں، توقع رکھیں کہ اس بھونڈے اور بھدے نظام سے مستفید ہونے والوں کو یہ بات سمجھ آ گئی ہو گی کہ جو گڑھا ہم دوسروں کے لئے کھودتے ہیں اس میں ہم خود بھی گر سکتے ہیں۔
اس بدبودار، بھونڈے اور بھدے نظام کا انجام اور اس کے بڑے بڑے بینفیشریز کا انجام اس لیے بھی ضروری ہو چکا تھا کہ اس سے پہلے تک کم از کم سیاستدانوں نے اپنی برطرفیوں کو اور اپنی جلاوطنیوں کو قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں بنایا تھا اور نہ ہی کبھی اس بدبودار نظام کو مزید بدبودار کر کے اس حد تک نہیں لے جایا گیا تھا کہ نوبت ریاست پر حملے تک آ جاتی اور بات بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی تک پہنچ جاتی۔
اب جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے اس کو نظام کا مزید بےنقاب ہونا نہیں کہتے بلکہ نظام کا اپنے انجام تک پہنچنا کہتے ہیں، چند برس پہلے تک جو عناصر اس بدبودار، بھونڈے اور بھدے نظام کے سب سے بڑے بینفیشریز تھے ان سب کا انجام تک پہنچنا ہی دراصل اس بدبودار، بھونڈے اور بھدے نظام کی موت ہے۔
اس بدبودار نظام کے پروردہ ثاقب نثار، پاشا، باجوہ اور فیض جیسے کردار اب کبھی جرأت نہیں کریں گے کہ اپنی سازشوں سے ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیں، اب کوئی جرنیل ہمت نہیں کرے گا کہ دوبارہ ترقی کرتے اور ایشین ٹائیگر بنتے ملک کے وزیراعظم کے خلاف کوئی عمران خان جیسا پپٹ لا کر ملک کو تجربہ گاہ بنانے کے بارے میں سوچ بھی سکے، یہ بھونڈا اور بدبودار نظام اس لیے بھی اپنے انجام تک پہنچتا نظر آ رہا ہے کہ اب کوئی فیض اس سے فیضیاب ہونے کی سازش نہیں کرے گا۔
یہ بدبودار نظام کا تسلسل نہیں بلکہ بدبودار نظام کے خاتمے کی جانب پہلا قدم ہے، انشاءاللّٰه آنے والے وقتوں میں اس بھونڈے نظام کے تمام بینفیشریز اپنے انجام کو پہنچیں گے، یہ ملک پھر سے ترقی کی طرف قدم بڑھائے گا، اس ملک میں جمہوریت کا نظام اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ ہو گا اور کوئی سازشی ٹولہ پھر اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
اور راج کرے گی خلقِ خدا، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔