اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ ایک جج نے مجھ پر پراکسی ہونے کا الزام عائد کیا ہے، ایک جج کیسے یہ جرأت کر سکتا ہے کہ وہ ایک سینیٹر کو پراکسی کہہ کر پارلیمنٹ کی توہین کرے؟
سینیٹر فیصل واوڈا نے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جج اطہر من اللّٰہ نے مجھ پر پراکسی کا الزام لگایا ہے، کیسے ایک جج کی جرأت ہوئی کہ وہ مجھ پر پراکسی ہونے کا الزام لگائے، اس سے اس جج کا تعصب نظر آتا ہے، اس کے بعد بھارت سمیت دنیا بھر کے اخبارات میں مجھے پراکسی کہا گیا، میں اس پر جج اطہر من اللّٰہ سے جواب لوں گا۔
فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ جج اطہر من اللّٰہ کی جانب سے مجھے پراکسی کہا گیا ہے جو نہ صرف میری بلکہ سینیٹ کے ایوان کی بھی توہین ہے، جج اطہر من اللّٰہ نے پارلیمان کی حیثیت کو چیلنج کیا ہے، میں اس ایوان سے جج اطہر من اللّٰہ کے خلاف کارروائی کی سفارش کرتا ہوں۔
پارلیمان کے ایوانِ بالا کے رکن فیصل واوڈا نے کہا کہ یہاں ججز نے دو تہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر بلیک لاء ڈکشنری کے تحت نااہل قرار دے دیا، منتخب وزیراعظم کو سسلین مافیا تک کہا گیا لیکن ان ججز کو کچھ بھی نہیں کہا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ پر سوال اٹھایا تو سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے لیٹر ایشو کر کے کہا کہ مجھے گرین کارڈ زبانی رپورٹ کیا گیا تھا، جب ریکارڈ مانگا تو جواب ملا کہ اس کا ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے کیونکہ زبانی بتایا گیا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صادق و امین نہیں رہے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈسٹرکٹ سیشن ججز نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ جسٹس محسن اختر کیانی اپنے عہدے کا غلط استعمال کر رہا ہے اور اپنی مرضی کے فیصلوں کیلئے ہراس کر رہا ہے جبکہ انکار کرنے پر ہماری پوسٹنگز کروا دی جاتی ہیں۔
سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ میں نے ایک پریس کانفرنس کی اور میں نے اس پریس کانفرنس کے دوران جو باتیں کہیں میں اس کے ایک ایک لفظ پر آج بھی قائم ہوں، میرے خلاف توہینِ عدالت کا نوٹس آ گیا لیکن جن پر توہینِ عدالت لگنی چاہیے تھی ان پر نہیں لگائی گئی، کہیں پر گیس نہ آئے یا کہیں پر بجلی نہ آئے تو مجھ پر الزام لگا دیا جاتا ہے، کوئی بھی توہینِ عدالت کرے نام میرا ہی لیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جج کیلئے میچز میں چیئرمین باکسز، گاڑیوں کیلئے ریڈ سٹیکر اور ہر میچ کیلئے پچیس وی وی آئی پی پاسز مانگے گئے، جو جج لوگوں کے کیسز کے فیصلے نہیں کر رہا اس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ایسے خط لکھے؟ کیا اس جج پر مس کنڈکٹ نہیں لگنا چاہیے اور اس کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟
فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے الیٹکرک بائیکس دینے کا کہا گیا تو اس پر سٹے آرڈر دے دیا گیا اور کہا گیا کہ ون ویلنگ ہو گی اور خواتین کو چھیڑا جائے گا، ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کو اب عدالتی قتل قرار دیا گیا ہے جو اچھی بات ہے لیکن انہیں پھانسی دینے والے جج اور ڈکٹیٹر کو علامتی پھانسی بھی ہونی چاہیے تھی۔