نیویارک (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’’فچ‘‘ کے مطابق پاکستان میں آئندہ مالیاتی سال کیلئے پیش کیے گئے بجٹ نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے امکانات کو مضبوط کر دیا ہے جبکہ یہ بجٹ جزوی طور پر بھی نافذ ہو جائے تو پاکستان کا مالیاتی خسارہ کم ہو جائے گا جبکہ اس سے بیرونی دباؤ میں بھی کمی آئے گی۔
آئندہ مالی سال (جو کہ 30 جون 2025 کو ختم ہو گا) کیلئے 13 جون کو جاری کیا گیا بجٹ وزیراعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کی طرف سے پیش کیا جانے والا پہلا بجٹ ہے، یہ بجٹ جی ڈی پی کے 5 اعشاریہ 9 فیصد کے ہیڈ لائن خسارے اور 2 فیصد بنیادی سرپلس کا منصوبہ ہے جبکہ اس میں وسیع پیمانے پر ٹیکس میں اضافہ اور صوبائی سطح پر اہم مالی کوششوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، بجٹ میں نمایاں طور پر زیادہ ترقیاتی اخراجات شامل ہیں اور مالی سال 2025 میں شرح نمو 3 اعشاریہ 6 فیصد تک جاتی نظر آ رہی ہے۔
فچ ریٹنگز کے مطابق یہ بجٹ جزوی طور پر نافذ ہو گا اور اس سے 0 اعشاریہ 8 فیصد کے بنیادی سرپلس کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے، سخت پالیسیز سے حکومت کی توقع کے برعکس ترقی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں، گزشتہ برس 3 اعشاریہ 5 فیصد رہنے والی ترقی کی شرح آئندہ برس 3 فیصد پر آ سکتی ہے تاہم اس کے باوجود آئندہ مالی سال کا بنیادی خسارہ ہدف کے مطابق رہے گا۔
امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے لکھا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے غیر مقبول سبسڈی اصلاحات کی ہیں جو مالیاتی اعتبار سے فائدہ مند رہیں، پاکستان نے رواں برس اپریل میں عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اپنا 9 ماہ کا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ مکمل کیا اور مئی میں آئی ایم ایف نے ایک نئی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پر اتفاق کرنے کی جانب اہم پیش رفت کا اشارہ دیا۔
حکومتی قرضہ گزشتہ مالی سال کی نسبت جی ڈی پی کے 68 فیصد تک کم ہو جائے گا جس کی وجہ افراطِ زر اور ڈیفلیٹر اثرات ہیں جو ملکی سود کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرتے ہیں، توقع ہے کہ افراطِ زر اور سود کی لاگتیں مل کر کم ہوں گی، سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 10 جون کو پانچ سالوں میں پہلی بار پالیسی ریٹ میں 150 بی پی سے 20 اعشاریہ 5 فیصد تک کمی کی ہے جبکہ آئندہ مالی سال میں افراطِ زر کی شرح 12 فیصد اور پالیسی ریٹ 16 فیصد متوقع ہے۔
فچ ریٹنگز کے مطابق فروری کے عام انتخابات کے بعد سے پاکستان کی بیرونی پوزیشن میں مسلسل بہتری آئی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2024 کی جی ڈی پی کے 0 اعشاریہ 3 فیصد (صرف 1 بلین امریکی ڈالرز) تک محدود ہونے کی توقع ہے جو کہ مالی سال 2023 میں 1 فیصد تھا، گھریلو طلب میں کمی نے درآمدات کو کم کر دیا ہے، اس حوالہ سے مضبوط زرعی برآمدات نے بھی مدد کی ہے جبکہ مجموعی ذخائر (سونے سمیت) اب 15 اعشاریہ 1 بلین امریکی ڈالرز ہیں جو کہ مالی سال 2023 میں 9 اعشاریہ 6 بلین امریکی ڈالرز تھے۔