اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کی کارروائی براہِ راست نشر کی گئی جبکہ کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ کر رہا ہے۔
آج سماعت کا آغاز ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106 سے تین ضروری نکات بیان کرنا ضروری ہیں، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی ہے اور مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن یا آپ کیا سوچ رہے ہیں وہ چھوڑ دیں، الیکشن کمیشن بھی آئین پر انحصار کرے گا، الیکشن کمیشن آئین کی غلط تشریح بھی کر سکتا ہے، عدالت کسی کی طرف سے آئین کی تشریح پر انحصار نہیں کرتی، آپ اپنی نہیں آئین کے مطابق تشریح بتائیں، آپ اپنی بات کریں، آئین کے مطابق بتائیں کہ سنی اتحاد کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی، نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست کے مطابق ہوں گی، ہر جماعت کو اپنی جنرل نشستوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ہم کیوں آئین کے نیچرل معنی کو نظر انداز کر دیں؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جنہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں؟
جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیئے گئے الفاظ غیر مؤثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو سیاسی جماعت ہی نہیں ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں انتخابات میں کارکردگی پر انحصار نہیں کرتی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد سیاسی جماعت نہیں رہی، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ سیاسی جماعت تو قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ تحریکِ انصاف اب بھی سیاسی جماعت کا وجود رکھتی ہے تو دوسری جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟ آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر کے خودکشی کیوں کی؟ یہ معاملہ آپ کے دلائل کے خلاف جا رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ پڑھا جو انتخابات سے قبل آیا، پورا معاملہ کنفیوژن کا شکار تب ہوا جب تحریکِ انصاف سے انتخابی نشان لے لیا گیا، سوال ہے کہ تحریکِ انصاف نشان کے بغیر کیسے انتخابات جیت سکتی ہے؟ ایک سیاسی جماعت کیلئے ایک ہی انتخابی نشان پر انتخابات لڑنا شرط نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ تحریکِ انصاف فیصلے کے بعد بھی منظرِ عام پر ہے تو آزاد امیدوار تحریکِ انصاف میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ آپ کہہ سکتے تھے کہ تحریکِ انصاف میں شامل ہو رہے ہیں تو کہانی ختم ہو جاتی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدوار کو الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ تمام امیدوار تحریکِ انصاف کے تھے؟ حقائق منافی ہیں، تحریکِ انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹ جمع کرا کر واپس کیوں لیے گئے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدوار گھوم رہے ہیں لیکن آزاد امیدوار ہیں کون؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی غلط تشریح کر رہا ہے تو ضروری نہیں کہ اسے دیکھا جائے، آئین کو دیکھنا ہے، عدالت یہاں یہ دیکھنے نہیں بیٹھی کہ الیکشن کمیشن نے کتنی زیادتی کی، عدالت نے دیکھنا ہے کہ آئین کیا کہہ رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں تحریکِ انصاف کے نہیں، آپ کے تحریکِ انصاف کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراؤ میں آتے ہیں، سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا، ماضی میں آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑائی گئیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، کسی سیاسی جماعت یا حکومتی مفاد کو نہیں بلکہ آئین کو دیکھنا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اس سوال کا جواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ رولز سے آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس منصور علی نے کہا تھا کہ 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جی بالکل، میں نہیں بلکہ آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت فورٹریس آف ڈکشنری نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جن ممالک کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ان کے آئین کل نہیں بنے، پاکستان کے آئین کو بنے 50 سال ہوئے اور اس کا حال آپ کے سامنے ہے، انگلستان میں لکھا ہوا آئین نہیں بلکہ تاریخ کو دیکھتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ تحریکِ انصاف کے صدر نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی؟ تحریکِ انصاف نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، تحریکِ انصاف نے لاہور ہائیکورٹ میں انتخابات کو روکنے کیلئے درخواست دائر کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان وزیراعظم تھے تو انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ انتخابات نہیں کرا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی، آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ہے، ہم اتنے ہوشیار نہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا، کیا تحریکِ انصاف کو ہم نے کہا تھا کہ الیکشن نہ کرائیں؟ عمران خان وزیراعظم تھے، الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کی منت کی تھی کہ انتخابات کرا لیں، تحریکِ انصاف کے ساڑھے آٹھ لاکھ ارکان کا حق کہاں گیا؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا شکوہ سپریم کورٹ سے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن سے ہے، آرٹیکل میں نہیں لکھا کہ مخصوص نشستوں کا معاملہ انتخابات سے قبل طے کرنا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں لکھا ہے کہ 25 سال کا شخص رکنِ قومی اسمبلی بن سکتا ہے تو کیا 20 سال کی بچی رکنِ قومی اسمبلی بن سکتی ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا کہا گیا، آئینی تشریح کرتے وقت تلخ حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہ لوگوں کے ووٹ کے حق کا معاملہ ہے، الیکشن پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے جبکہ 2018 میں بھی یہی ہوا، پریس کانفرنس کرنے والوں کو معافی دی جاتی رہی باقی افراد کو نشانہ بنایا جاتا رہا، یہ حقائق سب کے علم میں ہیں، کیا عدالت آنکھیں بند کر لے؟ کیا آنکھیں بند کر کے ایک سیاسی جماعت کو یہ چیلنجز بھگتنے کیلئے چھوڑ دیں؟ یہ سیاسی جماعت کا بھی نہیں اس کے ووٹرز کا معاملہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جسے لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملی وہ ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں کہ جب انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی، انتخابات کس نے کرائے؟ الیکشن رکوانے کی کوشش تحریکِ انصاف نے کی، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو رہے تھے، انتخابات کرانے کے لیے تحریکِ انصاف کو سال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ووٹ سارے تحریکِ انصاف کو ملے، تحریکِ انصاف کیوں سنی اتحاد میں کیوں چلی گئی؟ ووٹرز کا کیا بنا؟ بات ہو رہی ہے کہ تحریکِ انصاف کے ووٹ ہیں تو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی، جب تحریکِ انصاف انتخابات میں موجود ہی نہیں تو کیس تحریکِ انصاف کا کیسے ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت ایک فرد بیک وقت دو سیاسی جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا، درخواست گزار کے مطابق وہ تحریکِ انصاف وومن ونگ کی صدر ہیں اور اگر وہ چاہتی ہیں کہ انہیں سنی اتحاد کونسل کا امیدوار تصور کیا جائے تو پہلے وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوں۔
سلمان اکرم راجہ نے بینچ کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں خود کو تحریکِ انصاف کا امیدوار قرار دینے کیلئے رجوع کیا، ہائی کورٹ نے کہا انتخابات قریب ہیں مداخلت نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن نے دو فروری کا حکم سات فروری کو جاری کیا، سپریم کورٹ نے ہماری اپیل واپس کر دی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے اپیل کی واپسی تسلیم کر لی تو بات ختم، اگر رجسٹرار آفس کے کسی اقدام پر اعتراض تھا تو چیلنج کر دیتے، رجسٹرار آفس اور سپریم کورٹ میں فرق ہوتا ہے، آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی نے ریمارکس دیئے کہ سلمان اکرم راجہ صاحب آپ بحث سنی اتحاد کونسل کی کر رہے ہیں لیکن آپ کا دل تحریکِ انصاف میں ہے، سلمان اکرم راجہ آپ نے چیمبر اپیل فائل نہیں کی۔ آپ اکیلے ہی لگے ہوئے تھے، یہ بتائیں آپکی پوری پارٹی کدھر تھی؟
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں کسی کا کیس تباہ نہیں کر رہا، سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں، ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا الیکشن کمیشن بھی گئے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہم اب آپ کے مفروضوں پر چلیں گے یا آئین پر چلیں گے؟ کل کو ہر کوئی آ کر کہہ دے گا کہ یہ مجبوری تھی اس لیے آئین چھوڑ دیں؟ ملک مجبوریوں پر نہیں چل سکتا، جس نے آپ کو غلط مشورہ دیا اس پر مقدمہ دائر کریں، آئین پاکستان کے لوگوں کیلئے بنایا گیا ہے، آئین کو سمجھنے کیلئے کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہے،آئین کی اہمیت ہے چار ججز بٹھا کر آئین کو بدلا نہیں جا سکتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریکِ انصاف میں کوئی وکیل نہ ہوتا، پہلا الیکشن لڑ رہی ہوتی تو ہم یہ مفروضے سنتے، مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا، کل کوئی کہے گا مجبوری ہے سگنل پر رک نہیں سکتا،کسی نے غلط ایڈوائس دی ہے، بار بار سپریم کورٹ کا نہ کہیں رجسٹرار کے پاس جوڈیشل پاور نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ رجسٹرار کے اعتراضات کیخلاف چیمبر اپیل دائر کیوں نہیں کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ کو آئین کی کتاب دکھا دی اور ریمارکس دیئے کہ یہ آئین عوام کے منتخب نمائندوں نے بنایا ہے،آئین جو واضح ہے اس پر عمل کریں یہ سیدھا سادہ آئین ہے، آپ بار بار عوامی منشا کی بات کر رہے ہیں پھر تو سب نشستوں پر الیکشن ہونا چاہیے۔
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کہنا کہ 86 ارکان کی کوئی حیثیت نہیں اسمبلی کو غیر متوازن بناتا ہے، آزاد امیدوار کسی بھی وقت اسمبلی کا حصہ بن سکتا ہے، آئین کا مقصد پارلیمنٹ کو کسی سیاسی جماعت سے نمائندگی کروانا ہے، آزاد امیدوار تین روز بعد بھی شامل ہوسکتے، آزاد امیدواروں کی مرضی ہے،آزاد امیدوار کوئی سیٹ نہ جیتنے والی سیاسی جماعت میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کی لینگویج بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، تشریح کیلئے لینگویج کو دیکھنا ہے،آپ نے کیا غلط جماعت منتخب کی؟ آپ کو تحریکِ انصاف میں شامل ہونا چاہیے تھا، ملک کیلئے کیا اچھا ہوتا ہے وہ سوچنا ہے، ہر سیاسی جماعت ایک منزل کی طرح ہوتی ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین آزاد امیدوار کو کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا حق دیتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہیں کہ آپ سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر انتخابات لڑے، اگر آزاد امیدوار تھے تو ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں جس نے کوئی سیٹ جیتی ہو۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے ہر لفظ کی ایک اہمیت ہے۔
وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جو آزاد امیدوار شامل ہوں گے وہ جیتی ہوئی سیٹیں تصور ہوں گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کون امیدوار ہیں، کون سی سیاسی جماعتیں ہیں، عوام کو معلوم ہو سنی اتحاد کونسل ہے کون؟ کبھی حکومت میں آئی نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجا صاحب آپ جذبات میں دلائل دے رہے ہیں، جب سی ٹی سکین کروانے جائیں تو ایک گولی دیتے ہیں جو ریلیکس کر دیتی ہے، از راہِ تفنن بات کر رہا ہوں سلمان اکرم راجا صاحب آپ بھی وہ گولی کھا لیا کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ جمعیت علمائے اسلام میں بھی شامل ہو سکتے تھے، کس کی رائے تھی کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا ہے؟
سلمان اکرم نے بتایا کہ ممکن تھا کہ دیگر جماعتوں کے ساتھ سیاسی ذہنیت نہ ملے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ اپنے ووٹرز کا حق دے رہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے ایسا کرنے پر مجبور کیا، ووٹرز ہمارے ساتھ ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آپ اچکزئی صاحب کی جماعت میں بھی جا سکتے تھے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ ہمیں ایسی جماعت کی تلاش تھی جس کے ساتھ چل سکیں اور کل وہ ہم میں ضم ہو سکے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کو انتخابی نشان والے کیس میں بھی کہا تھا کہ مخصوص نشستوں کا مسئلہ ہو تو عدالت آ جانا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ حامد رضا اپنی ہی جماعت سے الیکشن نہیں لڑے؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ حامد رضا تحریکِ انصاف کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو یہی نہیں معلوم کہ حامد رضا نے اپنے کاغذات میں کس پارٹی کا نام لکھا؟
وکیل سنی اتحاد فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ حامد رضا نے بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کنول شوزب کا معلوم نہیں، حامد رضا نے کیوں آزاد امیدوار الیکشن لڑا، سنی اتحاد کونسل کہاں ہے؟
جسٹس یحیٰی آفریدی نے دریافت کیا کہ اس وقت چیئرمین تحریکِ انصاف کون ہے؟
سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ فی الحال گوہر علی خان چیئرمین تحریکِ انصاف ہیں، الیکشن کمیشن نے انہیں آزاد امیدوار دیکھا لیکن گوہر علی خان نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم کیس کو کل سے آگے لے کر نہیں جائیں گے، الیکشن کمیشن کے وکیل کل صاحبزادہ حامد خان کے کاغذاتِ نامزدگی لے کر آئیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ 2018 میں حامد رضا نے تحریکِ انصاف کے امیدوار کے خلاف الیکشن لڑا تھا، تحریکِ انصاف نے 23 جنوری امیدواروں کی فہرست جاری کی اور اس فہرست میں حامد رضا کا نام شامل تھا، پھر الیکشن لڑ کر جیت جاتے ہیں تو اب انکا لیگل اسٹیٹس کیا ہے؟ سنی اتحاد کونسل کا چیئرمین بھی آزاد ہو کر الیکشن لڑا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی۔