اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ فلسطین کے خطہ پر اسرائیل کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے، جب اسرائیل بنا تو قائداعظم نے اسے مغرب کا ناجائز بچہ کہا، ہمیں 1947 والے مؤقف پر کلیئر ہو جانا چاہیے، ہماری یہ تجویز ہے کہ اسلامی ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور ایک مشترکہ دفاعی حکمتِ عملی تشکیل دی جائے جبکہ سعودی عرب اور پاکستان اُمتِ مسلمہ کو لیڈ کریں۔
ایوانِ صدر اسلام آباد میں مظلوم فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، صدرِ مسلم لیگ (ن) میاں محمد نواز شریف، قائدِ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، صدر عوامی نیشنل پارٹی ایمل ولی خان، سربراہ ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی، امیرِ جماعتِ اسلامی نعیم الرحمٰن اور دیگر راہنما شریک ہوئے ہیں۔
اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین کے خطہ پر اسرائیل کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے، اسرائیلی بربریت کے باعث اب تک غزہ اور خان یونس میں 50 ہزار سے زائد مظلوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ دس ہزار سے زائد لوگ اسرائیلی بربریت کے باعث ملبوں تلے دبے ہوئے ہیں، فلسطینی خطہ میں یہودیوں کی آبادی یا یہودیوں کی بستیوں کا کوئی بھی جواز نہیں بنتا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی گئی، جب اسرائیل بنا تو قائداعظم نے اسے مغرب کا ناجائز بچہ کہا، اسرائیل کے ناسور کا فیصلہ 1917 میں برطانوی وزیرِ خارجہ نے کیا تھا، اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بحث پر تعجب ہوتا ہے، دو ریاستی حل کا جواز شرعی ہے نہ سیاسی اور نہ جغرافیائی طور پر یہ ممکن ہے، ہمیں اسرائیل کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اُمتِ مسلمہ نے فلسطین سے متعلق جس غفلت کا مظاہرہ کیا ہے وہ اللّٰه تعالٰی کی نظر میں جرم ہے اور ہم پاکستانی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، ہم سے جنوبی افریقا اچھا ہے جس نے عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف کیس دائر کیا، اقوامِ متحدہ نے اسرائیل کے خلاف قرارداد پاس کی مگر اسرائیل اس قرارداد اور عالمی عدالت کے احکامات کے باوجود ڈھٹائی کے ساتھ ظلم جاری رکھے ہوئے ہے۔
قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس انداز میں ہمدردی نہیں دکھائی جس طرح انہوں نے ہمیں مدد کیلئے پکارا، ہمیں 1947 والے مؤقف پر کلیئر ہو جانا چاہیے، ہمیں عملی طور پر فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، پاکستان سمیت پوری دنیا مصلحتوں کا شکار ہے لیکن ہمیں ان مجبوریوں سے نکلنا ہو گا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ آج کی یہ میٹنگ بامعنی ہونی چاہیے، اس کانفرنس کی قرارداد سے فلسطینیوں کے دکھوں کا ازالہ نہیں ہو گا، ہماری یہ تجویز ہے کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے مشترکہ دفاعی حکمتِ عملی تشکیل دی جائے جبکہ سعودی عرب اور پاکستان اُمتِ مسلمہ کو لیڈ کریں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں منعقد ہو رہا ہے تو اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے اور اگر ہمیں معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اس کیلئے داخلی یکجہتی دکھانا ضروری ہے، پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ دنیا کے مختلف ممالک کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا جا سکے۔