جولائی 2017 سے اب تک سپریم کورٹ آف پاکستان سیاسی نوعیت کے کیسز اور سو موٹو نوٹسز کی وجہ سے مسلسل توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس عرصہ کے دوران عدلیہ سخت تنقید کی زد میں بھی رہی ہے اور بار بار چند جج صاحبان پر جانبداری اور بددیانتی کے سنگین الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ ریکارڈ دیکھا جائے تو چند ججز ایسے ہیں جو ان 8 سالوں میں سپریم کورٹ میں سنے گئے ہر سیاسی نوعیت کے کیس کا حصہ رہے ہیں جبکہ کچھ نام ایسے بھی ہیں جو سپریم کورٹ میں بطور جج خدمات تو انجام دے رہے ہیں مگر کسی سیاسی نوعیت کے کیس میں انہیں کبھی شامل نہیں کیا گیا۔
جولائی 2017 میں پاناما کیس کیلئے تشکیل دیئے گئے بینچ میں جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے، بعدازاں نیب کیسز کیلئے اسی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن کو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے مانیٹرنگ جج بھی لگایا گیا۔ اس کیس میں وزیراعظم نواز شریف کیلئے ان کے بیٹے کی کمپنی سے ایک قابلِ وصول تنخواہ کو نواز شریف کا اثاثہ قرار دیا گیا اور انہیں اس تنخواہ کو اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا گیا۔
دسمبر 2017 میں حنیف عباسی کی جانب سے دائر کیے گئے کیس میں عمران خان کی بنی گالا اراضی کو قانونی اور عمران خان کو صادق و امین قرار دینے والے تین رکنی بینچ میں چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب شامل تھے۔
فروری 2018 میں سپریم کورٹ کے جس تین رکنی بینچ نے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی تشریح کرتے ہوئے اسمبلی رکنیت کیلئے نااہل قرار پانے والے شخص کو کسی سیاسی جماعت کی صدارت کیلئے بھی نااہل قرار دیا اس میں چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے۔
اپریل 2018 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل باسٹھ اے کی تشریح کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کیلئے اسمبلی رکنیت سے نااہلی کی مدت کا تعین کیا، فیصلہ میں کہا گیا کہ نااہلی تاحیات ہو گی۔
جولائی 2018 میں دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے ڈیم فنڈ شروع کیا گیا جس کو بعدازاں وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اس ڈیم فنڈ کا فیصلہ کرنے والے ججز میں چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
دسمبر 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری کے خلاف نااہلی کی پٹیشن خارج کرنے کا فیصلہ سنایا۔
اگست 2021 میں اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس علی مظہر نے یہ فیصلہ سنایا کہ سو موٹو نوٹس یعنی ازخود نوٹس کا مکمل اختیار صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو حاصل ہے۔
مارچ 2021 میں سینیٹ الیکشن کے متعلق صدارتی ریفرنس کے معاملہ پر بنایا گیا سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل تھا جس نے یہ فیصلہ سنایا کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے۔
اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد سے متعلق قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے والے سپریم کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس میاں خیل اور جسٹس مندوخیل شامل تھے۔
مئی 2022 میں تحقیقاتی اداروں کی تفتیش میں حکومتی مداخلت سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں تشکیل دیا گیا بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس علی مظہر پر مشتمل تھا۔
مئی 2022 میں ہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس میاں خیل اور جسٹس مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے اکثریتی طور پر ارکانِ اسمبلی کی جانب سے پارٹی ہدایات کے برخلاف دیئے گئے ووٹس کو مسترد قرار دینے کا فیصلہ سنایا۔
مئی 2022 میں ہی ایک اور سیاسی نوعیت کے کیس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے انتظامیہ کو تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کیلئے اجازت دینے اور سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ سنایا۔
تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کے حوالہ سے عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی استدعا کے متعلق مئی 2022 میں ہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ نے فیصلہ سنایا۔
جولائی 2022 میں سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے پارٹی سربراہ کی ہدایات کے برخلاف دیئے گئے ووٹس مسترد قرار دینے کی رولنگ کو غلط قرار دے کر پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلیٰ بنا دیا۔ یہ فیصلہ سنانے والے تین رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
مارچ 2023 میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے متعلق ازخود نوٹس لیا، ابتدائی طور پر 9 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس علی مظہر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل تھے، دو ججز نے اس بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی جبکہ چار معزز جج صاحبان نے اس کیس کو خارج کرنے کا نوٹ تحریر کیا۔ اپریل 2023 میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے الیکشن کیلئے تاریخ کا اعلان کر دیا۔
اپریل 2023 میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد کو روک دیا۔
مندرجہ بالا تمام کیسز سیاسی نوعیت کے تھے جن کی سماعت کیلئے تشکیل دیئے گئے بینچز یا اکثریتی فیصلہ سنانے والے ججز میں بار بار ایک جیسے نام سامنے آتے رہے جبکہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت کئی ججز ایسے بھی ہیں جنہیں سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کیلئے کسی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، ان میں ریٹائر ہو جانے والے جسٹس مقبول باقر بھی شامل ہیں، انہیں بھی کسی سیاسی نوعیت کے کیس کا حصہ نہیں بنایا گیا۔