اسلام آباد—مسلم لیگ ن کے راہنما اور سابق وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے نجی نیوز چینلز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عثمان ڈار کے گھر والوں کے بیانات میں تضادات ہیں، انہیں چاہیے کہ پہلے گھر میں اپنے بیانات کو آپس میں طے کر لیں، میرے دل میں عثمان ڈار کی والدہ کیلئے بڑی عزت ہے اور عثمان ڈار والے کیس میں میرا کچھ کہنا بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ میرے مخالفین میں سے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ عثمان ڈار کے والد 1997 میں مسلم لیگ نواز کی ٹکٹ پر ڈپٹی میئر منتخب ہوئے، پھر انہوں نے جدہ جا کر میاں نواز شریف سے ملاقاتیں کیں، پھر نیو یارک میں یہ شہباز شریف سے بھی ملے جبکہ شہباز شریف وہاں علاج کیلئے گئے ہوئے تھے، پھر لندن میں انہوں نے ایون فیلڈ میں شہباز شریف کے ساتھ میری موجودگی میں ملاقات کی اور سیالکوٹ کیلئے ٹکٹ مانگتے رہے۔
سابق وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے جن درخواستوں پر مجھے گرفتار کروایا وہ درخواستیں عثمان ڈار کے والد نے ہی دلوائی تھیں اور اس بات کا اعتراف انہوں نے خود میاں شہباز شریف کے سامنے کیا، اپریل 2018 میں عثمان ڈار نے جو درخواست دی اس پر مجھے 6 ماہ قید ہوئی اور انہوں نے میرے اوپر آرٹیکل 6 بھی لگوایا لیکن اللّٰه تعالیٰ کی مہربانی سے میرے خلاف تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوئے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ سیاسی مخالف سے لڑائی صرف ووٹوں کی ہونی چاہیے، اپنے مخالف کے خلاف جھوٹی درخواستیں دے کر کاروائیاں نہیں کروانی چاہئیں، سیاست میں میرے ضابطہ اخلاق میں یہ بات جائز نہیں ہے، انہوں نے تو میرے علاوہ میری اہلیہ اور میرے بیٹے کو بھی ان معاملات میں شامل کیا، یہاں تک کہ مجھ پر آرٹیکل 6 بھی لگوانے کی کوششیں کیں۔
عثمان ڈار کے اعترافی بیانات کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ عثمان ڈار پر بیان کیلئے کوئی دباؤ تھا، عثمان ڈار نے فیصلہ کیا تب ہی بیان دیا، یہ لوگ اب خود 9 مئی کے حملوں کی شہادتیں دے رہے ہیں، 9 مئی کو ایک ہی وقت میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، عثمان ڈار کی بات درست ہے کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کے خلاف محاذ بنایا اور عمران خان کو یہ اشارے مل رہے تھے کہ حالات خراب کریں اور اس طرح چیزیں تبدیل ہو سکتی ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے راہنما نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ہر طرف سے کھیل رہی تھی، عمران خان کے حکومت سے نکلنے کے بعد بھی ہر قدم پر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے حمایت ملتی رہی۔ پرویز الٰہی کا معاملات طے کرنے کے بعد پی ڈی ایم سے پیچھے ہٹ جانا، عمران خان کا لانگ مارچ، حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ ختم ہونا اور سپریم کورٹ سے آئین کی غلط تشریحات آنا اسی حمایت کا تسلسل تھا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عارف علوی نے جنرل (ر) باجوہ اور عمران خان کی چار گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کروائی، پریذیڈنسی عمران خان کی پناہ گاہ بنی ہوئی تھی اور عمران خان نے اس کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا، اگر صدر عارف علوی میں رتی برابر بھی عزتِ نفس موجود ہے تو انہیں فوری استعفیٰ دے دینا چاہیے لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جو سازش تیار کی اس کا مقصد یہی تھا کہ آرمی چیف کی تقرری کو ریورس کروایا جائے کیونکہ عمران خان یہ سمجھتا تھا کہ جب تک جنرل عاصم منیر آرمی چیف ہے تب تک میرے منصوبے اور عزائم کامیاب نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں جو میری مدد کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے فوج کے کچھ سینئر افسران کو فارغ بھی کیا گیا کیونکہ ان کا کردار بھی شامل تھا۔
مسلم لیگی راہنما نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ 6 برس آرمی چیف رہے اور انہیں یہ 6 برس کا اقتدار آرام سے نہیں بیٹھنے دے رہا تھا لہذا وہ اگلا آرمی چیف بھی اپنی مرضی کا لگوانا چاہتے تھے لیکن ہمارا اصرار اس بات پر تھا کہ سب سے سینئر فرد ہی آرمی چیف بننا چاہیے جو کہ جنرل عاصم منیر تھے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالیہ دہشتگردی کے تانے بانے تحریکِ انصاف سے ملتے ہیں اور ان دہشتگردوں کو انتخابات میں بھی تحریکِ انصاف کی حمایت میں استعمال کیے جانے کا خدشہ ہے، تحریکِ انصاف کے دور میں ہزاروں دہشتگرد واپس لائے گئے اور انہیں معافی دی گئی جبکہ عمران خان نے خود بھی اس کا اعتراف کیا، وہ تمام دہشتگرد عمران خان کے حامی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2018 میں جو سازشیں کی گئیں ان کا اعتراف کیا جانا چاہیے تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں، ہمارا پہلا ہدف ملک سے مہنگائی کو ختم کرنا اور معیشت کو بحال کرنا ہے، احتساب ہونا چاہیے اور اس بارے میں پارلیمنٹ ہی فیصلہ کرے گی۔