لاہور—پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ہریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آ رہے ہیں، اب یہ بحث ختم ہو جانی چاہیے کہ نواز شریف واپس آ رہے ہیں یا نہیں، پاکستان کی معاشی حالت بدلنے اور بہتر کرنے کا اپنا پلان اور پروگرام میاں نواز شریف خود 21 اکتوبر کو مینارِ پاکستان پر قوم کو بتائیں گے، یہ وہ پروگرام ہے جس سے انشاءاللّٰه پاکستان دوبارہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔
میاں شہباز شریف نے کہا کہ 2017 میں نواز شریف کو ایک بدترین سازش کے تحت پاناما کیس میں اقامہ پر سزا دلوائی گئی، نواز شریف کو اقتدار سے نکال کر ملکی ترقی و خوشحالی کے سفر پر کاری ضرب لگائی گئی، ساڑھے 6 فیصد ترقی کا سفر روک دیا گیا، پاناما پیپرز میں کئی سیاستدانوں سمیت چار سو سے زائد پاکستانیوں کے نام تھے مگر ان میں سے کسی کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کروائی گئیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری 16 ماہ کی مخلوط حکومت کو کئی چیلنجز اور مشکلات کا سامنا تھا، ایک طرف معاشی بدحالی تھی اور دوسری طرف لانگ مارچ اور دھرنے تھے، ہمارے سامنے آئی ایم ایف کا چیلنج تھا، تحریکِ انصاف حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ خود جو شرائط طے کی تھیں انھی کی خلاف ورزی بھی کی، تحریکِ انصاف نے اپنے مفادات کیلئے ریاست کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔
مسلم لیگ نواز کے صدر نے کہا کہ ہم بھی اپنی سیاست کو بچانے کیلئے ریاست کو ڈبو سکتے تھے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا، اگر نواز شریف مجھے سیاست بچانے کا کہتے تو میں مستعفی ہو جاتا لیکن نواز شریف نے سیاست کو قربان کر کے پاکستان کو بچانے کا فیصلہ کیا اور ہم نے 16 ماہ کے دوران مسائل کو حل کرنے کیلئے بھرپور کوششیں کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاتھ آئی ایم ایف کے سامنے بندھے ہوئے تھے کیونکہ تحریکِ انصاف نے معیشت کو تباہ کر دیا تھا، پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا اور اگر ملک دیوالیہ ہو جاتا تو ہر طرف تباہی پھیلتی، ادویات نہ ملتیں، پیٹرول پمپس پر لائنیں لگی ہوتیں مگر پیٹرول نہ ملتا اور لاکھوں لوگ بےروزگار ہو جاتے، ہم نے سیاسی قربانیاں دے کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انشاءاللّٰه اچھا وقت آئے گا۔
میاں شہباز شریف نے کہا کہ 2014 میں عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوا تھا، نواز شریف نے مجھے بلایا اور کہا کہ کچھ کرو کیونکہ چینی صدر کے نہ آنے سے پاکستان کا نقصان ہو گا، میں نے جنرل راحیل شریف کو فون کیا اور انہیں کہا کہ آپ بھی کردار ادا کریں، چینی سفیر نے دھرنے والوں سے کہا کہ آپ صرف تین روز کیلئے اٹھ جائیں اور چینی صدر کے دورہ کے بعد دوبارہ بیٹھ جائیے گا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا نواز شریف کی پاکستان کیلئے تاریخی خدمات ہیں، 28 مئی کو نواز شریف کی جرأت کی بدولت پاکستان نے بھارت کے مقابلہ میں 6 ایٹمی دھماکے کیے، میں جانتا ہوں کہ نواز شریف نے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کیلئے بڑی محنت کی تھی لیکن یہاں سی پیک کو روکنے کیلئے پہاڑ نما رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
مسلم لیگ نواز کے صدر نے کہا کہ جب میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے اکنامک ریفارمز کا ماڈل متعارف کروایا، شہباز سپیڈ اور پنجاب سپیڈ دراصل نواز سپیڈ ہے، میاں نواز شریف کے اکنامک ماڈل کو انڈیا نے کاپی کیا اور آج دیکھ لیں کہ انڈیا کے معاشی حالات کیسے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 12 اکتوبر 1999 کو میاں نواز شریف اور مجھے کئی ماہ کیلئے غائب کر دیا گیا، ہمارے بچوں اور ہمارے بوڑھے ماں باپ کو کوئی علم نہیں تھا کہ ہم کہاں ہیں، ہمیں ایسے اندھیروں میں رکھا گیا کہ جہاں ہمیں دن اور رات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا، کاش آپ لوگ ان چیزوں کو بھی یاد رکھیں، میاں نواز شریف کو کئی بار ہتھکڑیاں لگیں، ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا، جلاوطن کیا گیا لیکن نواز شریف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ 9 مئی کی طرح فوجی تنصیبات پر حملے کر دو، جی ایچ کیو پر دھاوا بول دو اور کور کمانڈر ہاؤس کو جلا دو۔
میاں شہباز شریف نے کہا کہ اگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ سے کروڑوں لوگوں کی تکالیف، غربت، مہنگائی اور بےروزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے، مریضوں کو دوائی مل سکتی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ جو چند لوگ لبرل بن کر ہمارے خلاف تنقید کر رہے ہیں وہ اس وقت کہاں تھے جب پرویز مشرف نے کارگل ایڈونچر کر کے پاکستان کو تباہی میں دھکیل دیا اور پھر نواز شریف نے پاکستان کو بچایا اور اس کے باوجود نواز شریف کو اقتدار سے بےدخل کر کے ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور جیلوں میں رکھا گیا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری نوجوان نسل بہت قیمتی ہے، انہیں جدید تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے، ہم سب کو مل کر اس گالم گلوچ اور زہر آلو بیانیہ کا تدارک کرنا ہے جو گزشتہ پانچ برس کے دوران نوجوانوں کے ذہنوں میں داخل کرنے کی کوششیں کی گئیں، اس سے پہلے جب محترمہ کلثوم نواز بسترِ مرگ پر تھیں تو ان کا مذاق اڑایا گیا، جب نواز شریف لندن میں آپریشن کروانے کیلئے گئے تو ان کے متعلق بھی غلط بیانات دیئے گئے۔