پشاور (تھرسڈے ٹائمز) — مولانا فضل الرحمٰن آئندہ پانچ برس کیلئے جمعیت علمائے اسلام کے امیر منتخب ہو گئے، جمعیت علمائے اسلام کی جنرل کونسل (مجلسِ عمومی) نے متفقہ طور پر مولانا فضل الرحمٰن کو امیر اور مولانا عبدالغفور حیدری کو جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا۔
جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس پشاور میں مفتی محمود مرکز میں جاری ہے، اجلاس میں ملک بھر سے اراکینِ جنرل کونسل نے شرکت کی، اجلاس میں متفقہ طور پر ایک بار پھر مولانا فضل الرحمٰن کو پانچ سالوں کیلئے مرکزی امیر منتخب کر لیا گیا ہے جبکہ اجلاس نے متفقہ طور پر مولانا عبدالغفور حیدری کو ناظمِ عمومی منتخب کیا ہے۔
اجلاس میں مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا امجد خان، حافظ حمد اللّٰہ، مولانا عطاء الحق درویش، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کے امراء اور نظماء نے کارگزاری رپورٹس پیش کیں جبکہ اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال، آئندہ انتخابات کی تیاری اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں جاری مہم کا جائزہ لیا گیا۔
امیر مرکزیہ مولانا فضل الرحمٰن نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریعت کا اوّلین تقاضا ہے کہ ہم اس کا عملی نمونہ بنیں، جو خرابیاں مشرکین اور منافقین میں تھیں وہی آج کے دور میں کلمہ گو مسلمان میں بھی آئی ہیں، ہمیں ان عادات سے مسلمانوں کو نجات دلانا ہو گی، یہ منافقین کی علامت تھی کہ اگر دنیا کا نفع ملتا تو راضی ہو جاتے ورنہ ناراض ہو جاتے، دین کے معاملہ میں جھگڑے اور فسادات آڑے نہیں آتے لیکن اگر دنیا کی طلب ہو تو پھر حالات بدل جاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جمہوریت ایک ماحول کا نام ہے جس میں عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوتا ہے، جمہوریت میں زیادہ سے زیادہ عوام کی شرکت ہوتی ہے، اسلامی مملکت میں جبری امامت نہیں ہوتی، حاکمیتِ اعلٰی اللّٰه تعالیٰ کی ہے، قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق ہو گی، معاشرے کی تربیت اسلامی خطوط پر کرنا ہو گی، اللّٰه تعالیٰ نے ہمیں استطاعت سے زیادہ کوشش کا مکلف نہیں بنایا، یہ اللّٰه کی مہربانی ہے کہ ہمیں کوشش کا مکلف بنایا اور ہم نتیجہ کے ذمہ دار بھی نہیں ہیں۔
قائدِ جمعیت نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گناہ کا مرتکب کافر نہیں ہوتا بلکہ گناہگار ہوتا ہے، ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان کیلئے حرام ہے، کیا کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو ناحق قتل کر کے خود مسلمان رہ سکتا ہے؟ پوری دنیا تباہ ہو جائے یہ اللّٰه پر اتنا بھاری نہیں جتنا ایک مسلمان کا ناحق قتل بھاری ہے، کعبے کا انہدام اتنا بھاری نہیں جتنا مسلمان کا ناحق قتل بھاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برصغیر میں انگریز آئے تو مسلمان نے اسلحہ اٹھا کر آزادی حاصل کی، بعض لوگ جذبات میں آ کر اور اپنے نظریہ سے مایوس ہو کر ناحق قتل و قتال پر اتر آتے ہیں، ہم بدامنی کے خلاف صد آراء ہیں، ہم امن و امان کا مطالبہ کرتے رہیں گے، ہم خون کے دریاؤں سے گزرے ہیں لیکن جادہ حق سے اِدھر اُدھر ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر موجودہ فیصلے ریاست کے ہیں تو اس میں پارلیمان کہاں ہے؟ اداروں کے ساتھ اختلاف آ جاتا ہے، غلط کو غلط کہیں گے لیکن مستقل دشمنی نہیں ہے، ہم اپنے مینڈیٹ کا تحفظ چاہتے ہیں، دھاندلی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، دھاندلی اگر ہمارے حق میں بھی ہو تو سنگین جرم ہے، قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے 30 اراکین نے بغاوت کی لیکن ہم نے انہیں وہاں بھی قبول نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام نے دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے توانا آواز اٹھائی ہے، ہم نے دنیا کے ہر خطہ میں امریکی مظالم کی مخالفت کی ہے، برما میں میانمار کے مظالم پر پوری دنیا خاموش تھی جبکہ ہم نے پارلیمان میں قرارداد پیش کی، فلسطین کا مسئلہ اٹھا تو ہم پاکستان میں اسرائیل کے خلاف توانا آواز بنے، ہم نے اپنی بساط کے مطابق قطر جا کر مسلمانوں کی دادرسی کی۔