نیویارک/غزہ (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار ”نیو یارک ٹائمز“ کے مطابق اسرائیل نے غزہ کو بچوں کیلئے ”قبرستان“ بنا دیا ہے، اسرائیلی حملوں میں اس محصور علاقہ ”غزہ“ کے ہزاروں بچے شہید ہو چکے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کے ایک فوٹوگرافر نے 9 سالہ خالد جودہ کو مردہ خانہ کے باہر سفید کفنوں، کمبلوں اور قالینوں میں لپٹی درجنوں لاشوں کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے دیکھا جو ننگے پاؤں تھا اور روتے ہوئے کہہ رہا تھا ”میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں، میری ماں کہاں ہے؟ خلیل کہاں ہے“؟
خلیل اس کا 12 سالہ بھائی تھا، مردہ خانہ میں کام کرنے والے ایک شخص نے ایک سفید کفن کھولا تاکہ خالد آخری بار اپنے بھائی خلیل کا بوسہ لے سکے، پھر 9 سالہ خالد نے اپنی 8 ماہ کی بہن کی لاش کو دیکھا، ایک اور کفن کھولا گیا جس سے مسک نامی ایک بچے کا خون آلود چہرہ ظاہر ہوا اور خالد نے اس کی پیشانی کو چھوتے ہوئے سرگوشی کی ”ماں تمہیں پا کر بہت خوش تھیں“ جبکہ خالد کے چہرے پر آنسو جاری تھے۔
خالد نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنی ماں، اپنے باپ، بڑے بھائی اور بہن کو الوداع کیا، خاندان میں صرف خالد اور اس کا 7 سالہ چھوٹا بھائی تامر زندہ بچے تھے، ذرائع کے مطابق اس خاندان کے باقی تمام افراد 22 اکتوبر کو ایک فضائی حملے میں شہید ہوئے تھے، اس فضائی حملے میں اس خاندان کو پناہ دینے والی دو عمارتیں تباہ ہوئیں جبکہ شہید ہونے والوں کو ایک وسیع قبر میں ایک ساتھ دفن کیا گیا۔
اس دن جودہ خاندان کے 68 افراد شہید ہوئے تھے جبکہ حملہ کے وقت وہ وسطی غزہ کے دیر البلاح میں اپنے بستروں میں سو رہے تھے، فلسطینی خاندان ”جودہ“ کی کئی شاخیں اور نسلیں ہیں، یہ خاندان ایک عمارت میں پناہ لیے ہوئے تھا، خاندان کے کچھ افراد شمالی غزہ کی جانب بھی جا چکے تھے جبکہ اسرائیلی فوج نے خاندان پر حملے کے متعلق سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق شدید بمباری، ہاسپٹلز کے منہدم ہونے، بچوں کے لاپتہ ہونے اور ملبوں اور کھنڈرات میں دب جانے والی لاشوں کے باعث غزہ میں شہید ہونے والے بچوں کی درست تعداد کا تعین ممکن نہیں ہے، غزہ میں ہیلتھ آفیشلز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 5 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں اور سینکڑوں مزید بچوں کے شہید ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
امریکی اخبار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دنیا کے بڑے تنازعات میں دو درجن سے زائد ممالک کے 2985 بچے مارے گئے جبکہ صرف غزہ میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران 5 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں، اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی فوجی اور انتظامی صلاحیتوں کو ختم کرنے کیلئے مجبوراً جنگ لڑ رہے ہیں اور اس جنگ میں اسرائیلی فورسز کی طرف سے رہائشیوں کو جنوبی غزہ کی طرف جانے کا کہا گیا ہے جبکہ ہوائی حملوں سے پہلے، اگر ممکن ہو تو، وارننگ بھی جاری کی جاتی ہے۔
لیکن ان 15 ہزار سے زائد تیز رفتار حملوں میں جنوبی غزہ کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو کہ 21ویں صدی میں اب تک کی سب سے بڑی بمباری مہم ہے جبکہ یہ حملے ایک ایسے محصور علاقہ پر کیے جا رہے ہیں جس میں نہتے شہریوں بالخصوص بچوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
دیر البلاح کے الاقصٰی ہاسپٹل کے مردہ خانہ میں اتنے بچے لائے گئے ہیں کہ مردہ خانہ کے ڈائریکٹر یاسر ابو عمار کا کہنا ہے کہ ”لاشوں کیلئے کفن کم پڑ گئے اور مجبوراً کفنوں کو بچوں کے سائز کے مطابق ٹکڑوں میں کاٹنا پڑا، بچوں کی لاشیں ٹوٹی پھوٹی اور ٹکڑوں میں لائی جاتی ہیں، ہم نے بچوں کی اتنی تعداد میں لاشیں کبھی نہیں دیکھیں، ہم ہر روز روتے ہیں، ہم ہر روز بچوں کی لاشیں جوڑتے ہوئے روتے ہیں“۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق گزشتہ جنگوں کے دوران غزہ میں والدین اپنے بچوں کو گھروں کے اندر مختلف کمروں میں بستر پر ڈال دیتے تھے تاکہ اگر فضائی حملے میں گھر کے ایک حصہ کو نقصان پہنچے تو باقی بچے زندہ رہ سکیں جبکہ حالیہ جنگ میں وسیع پیمانے پر جاری حملوں کے باعث والدین نے بچوں کے درمیان فاصلوں کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے، وہ اپنے بچوں کو الگ کر کے غزہ پٹی کے مختلف حصوں میں رشتہ داروں کے پاس بھیجنے کی کوششیں کر رہے ہیں، بقاء کی اس جنگ میں والدین نے اپنے بچوں کے نام براہِ راست ان کے جسموں (جلد) پر لکھنا شروع کر دیئے ہیں تاکہ اگر وہ گم ہو جائیں، یتیم ہو جائیں یا شہید ہو جائیں تو ان کی شناخت ہو سکے، غزہ میں بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، وہ کہیں بھی نہیں جا سکتے، ان دس لاکھ بچوں کیلئے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔
غزہ کے الشفاء ہاسپٹل کے ایمرجنسی روم میں ڈاکٹر غسان ابو ستہ نے بتایا ہے کہ بہت سارے بچے ایسے بھی ہیں جنہیں اس حالت میں لایا گیا کہ وہ جھلسے ہوئے تھے، ان کے جسموں پر چھریوں کے زخم تھے، وہ ملبے تلے کچلے جانے کے باعث شدید زخمی تھے جبکہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ بچے کون ہیں، وہ بچے اکیلے ہیں اور صدمے کی حالت میں ہیں، ایسے بچوں کو ”نامعلوم ٹراما چائلڈ“ کا نام دیا گیا ہے جب تک کہ کوئی انہیں پہچان نہ لے جبکہ ان میں سے کچھ بچے ایسے ہیں کہ ان کے خاندان میں ان کے علاوہ کوئی زندہ نہیں بچا لہذا ان کیلئے اب کوئی نہیں آئے گا، دو ہفتوں کے دوران الشفاء ہاسپٹل کے ایمرجنسی روم میں ایک ہزار 5 سو سے زائد ”نامعلوم ٹراما چائلڈ“ رجسٹرڈ ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ بچوں کے خلاف ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق حالیہ دنوں میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ کے ہزاروں افراد کی اس پناہ ”الشفاء ہاسپٹل“ پر دھاوا بولا گیا اور یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس کے نیچے حماس کا زیرِ زمین کمانڈ سینٹر ہے، اقوامِ متحدہ کے مطابق اسرائیلی فورسز کے “الشفاء ہاسپٹل“ پر حملے نے غزہ کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور عہدیداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا کہنا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر ”وولکر تورک“ نے اسرائیل پر حماس کے حملوں کو جنگی جرائم قرار دینے کے بعد رواں ماہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی شہریوں کو دی گئی سزاؤں اور شہریوں کے غیر قانونی انخلاء کو بھی جنگی جرم قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جاری بمباری میں خاص طور پر خواتین اور بچے مارے گئے ہیں جبکہ کئی معذور اور زخمی ہوئے ہیں، یہ ایک ناقابلِ برداشت چیز ہے۔
ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ 15 اکتوبر کو ”خان یونس“ کے النصر ہاسپٹل میں 24 گھنٹوں کی شفٹ پر تھے جبکہ انہوں نے ہاسپٹل کے قریب ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی اور پھر کچھ ہی دیر کے بعد ان کی اہلیہ، 12 سالہ بیٹی اور 9 سالہ بیٹے کو ایمرجنسی روم میں لایا گیا، وہ سب خون آلود اور ملبے کی خاک سے ڈھکے ہوئے تھے، ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ نے زخمی بیوی اور بچوں کو تسلی دینے کی کوشش کی لیکن پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا 7 سالہ یوسف ان کے ساتھ نہیں ہے، ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ کو بتایا گیا کہ ان کا بیٹا یوسف اب زندہ نہیں رہا، وہ مردہ خانہ کی طرف گئے جہاں انہیں یوسف کا بےجان جسم ملا۔
امریکی اخبار کے مطابق ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ کے خاندان کو کسی وارننگ کے بغیر کیے گئے اسرائیلی حملہ کے بعد ملبے سے نکالا گیا تھا، اسرائیلی حملوں میں ڈاکٹر محمد ابو موسیٰ کے بھائی جاسر ابو موسیٰ نے بھی اپنے دونوں بیٹوں اور بیوی کو کھو دیا جبکہ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ خاندان پر حملے کے بارے میں سوالات کا جواب نہیں دے سکتی۔
غزہ میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے ساتھ دماغی صحت کے شعبہ کی ایک آفیسر ندیا زعیم رفح میں ریڈ کراس کی پناہ گاہ میں چار بچوں سمیت اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بچوں میں صدمہ کی واضح علامات دکھائی دے رہی ہیں جس میں رات کی دہشت بھی شامل ہے، وہ چیختے چلاتے جاگ رہے ہیں، ہر رات بچے پناہ گاہ میں چیختے ہیں کہ ”ہم مرنے والے ہیں، ہم مرنے والے ہیں، ہمیں بچا لیں، ہم مرنا نہیں چاہتے“۔