اٹلانٹا (تھرسڈے ٹائمز) — امریکہ میں قائم بین الاقوامی نیوز چینل ”سی این این“ کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزارتِ خارجہ میں سابق ڈائریکٹر “جوش پال” نے کہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت میں وہی غلطیاں دوہرانے جا رہا ہے جو اس سے ماضی کی دہائیوں میں سرزد ہو چکی ہیں، امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے روس پر تنقید کرتا ہے مگر اسرائیل کے متعلق ایسا کرنے میں ناکام ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے آفیشل جوش پال نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اور فوجی امداد پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے، انہوں نے حماس اور اسرائیل کی جنگ کے متعلق بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جیسے لوگ، جو مڈل ایسٹ اور ڈیفینس اسٹیبلشمنٹ میں سیاسی اور عسکری امور میں عملی میدان میں رہ چکے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ٹھیک نہیں ہے اور اسرائیل ویسے نتائج حاصل نہیں کر پائے گا جیسے وہ چاہتا ہے بلکہ یہ صرف اسرائیل اور فلسطین کے عوام کی مشکلات کو ایک اور نسل تک بڑھانے کا عمل ہے، ہماری اقدار اور ہمارے عمل میں واضح طور پر تضادات موجود ہیں، ہماری سیاسی قیادت کے نظریات زمینی حقائق سے مختلف ہیں۔
جوش پال کا کہنا تھا کہ میں حماس اسرائیل جنگ کے دائرہ کار اور ہلاکتوں کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے مستعفی ہونے پر مجبور ہوا، اس جنگ کو ابھی دو ماہ ہوئے ہیں جبکہ غزہ میں مارے جانے والے بچوں کی تعداد 6 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جو کہ دو برس سے جاری روس اور یوکرین کی جنگ میں مارے جانے والوں کی نسبت تین گنا زیادہ ہے، حماس اسرائیل جنگ میں 50 سے زائد صحافی، اقوامِ متحدہ کے سو سے زائد امدادی اہلکار اور 200 سے زائد میڈیکل پروفیشنلز مارے جا چکے ہیں۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے سابق آفیشل نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں بہت سارے خدشات موجود ہیں مگر اس پر بحث نہیں کی گئی کہ یہ ہتھیار کیسے استعمال کیے جائیں گے اور کیا ہمیں یقین ہے کہ جنگی قوانین کا احترام کیا جائے گا؟ وال سٹریٹ جرنل نے گزشتہ دو دنوں میں یہ رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو 4 ہزار سے زائد ڈمپ بم، کئی ہزار گائیڈنس کٹس اور 45 ہزار توپ خانے کے گولے فراہم کیے ہیں۔
انہوں نے وزارتِ خارجہ کی جانب سے اپنے استعفیٰ کے متعلق بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کے ایک طاقتور ساتھی ہونے کی حیثیت سے امریکہ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جب معاملات ٹھیک ہوتے دکھائی نہیں دے رہے تو امریکہ کو آگے بڑھ کر راہنمائی کرنی چاہیے، اگر ہم کہتے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی سلامتی اور اس کے دفاع کیلئے اس کی حمایت کرتا ہے تو پھر ہمیں زمینی حقائق کو بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟ کیا ہماری امداد کے نتیجہ میں اسرائیل زیادہ محفوظ ہے یا ہماری فوجی امداد نے اسرائیل کو مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع کے ساتھ آگے بڑھنے، غزہ کا محاصرہ جاری رکھنے اور ایسے اقدامات کرنے کے قابل بنایا ہے جن کے نتیجہ میں قیامِ امن کی بجائے اسرائیل کی اپنی سلامتی کو بھی نقصان پہنچے گا؟
جوش پال کا کہنا تھا کہ یہ صرف غزہ کی تباہی نہیں ہے بلکہ پوری عرب دنیا اور دیگر کئی ممالک کیلئے امریکی خارجہ پالیسی کی تباہی ہے، جب ہم اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں تو ہم منافق لگتے ہیں، امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے روس پر تنقید کرتا ہے مگر اسرائیل کے متعلق ایسا کرنے میں ناکام ہے، میں یہ تجویز نہیں کر رہا کہ امریکہ کو اسرائیل کے قریب نہیں رہنا چاہیے بلکہ یہ تجویز کر رہا ہوں کہ ہمیں اسرائیل کو ایک بہتر راستے ہر ڈالنے اور غزہ میں بیہودہ قتلِ عام کو ختم کرنے کیلئے عملی طور پر کچھ کرنا چاہیے جبکہ امریکہ اس حوالے سے بہت کچھ کر سکتا ہے۔
کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) کو انٹرویو دیتے ہوئے جوش پال نے کہا کہ 7 اکتوبر کو جو کچھ ہوا وہ سراسر ظلم تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان مظالم کی بھی مذمت کرنی چاہیے جو مغربی کنارے میں روزانہ فلسطینیوں پر ڈھائے جا رہے ہیں، میں اسرائیل جانے والے اسلحہ کے حوالہ سے انسانی حقوق کی جانچ کے عمل کا حصہ تھا جبکہ ڈیفینس آف چلڈرن انٹرنیشنل فلسطین (ڈی سی آئی) نامی ایک خیراتی ادارہ نے محکمہ خارجہ کی توجہ جنسی حملوں کی جانب مبذول کرائی جو دراصل یروشلم کی مسجد کبیر میں اسرائیلی جیل کے اندر ایک 13 سالہ لڑکے کی عصمت دری کا واقعہ تھا، ان الزامات کا جائزہ لیا گیا اور ہمیں یقین ہے کہ الزامات قابلِ اعتماد تھے، ہم نے یہ معاملہ اسرائیلی حکومت کے سامنے رکھا تو اگلے دن اسرائیلی فوج نے ڈیفینس آف چلڈرن انٹرنیشنل فلسطین (ڈی سی آئی) کے دفاتر میں گھس کر ان کے تمام کمپیوٹرز ہٹا دیئے اور اس ادارہ کو ایک دہشتگرد ادارہ قرار دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تنازع کو حل کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں کہ تمام معاملات فریقین پر چھوڑ دیئے جائیں اور نہ ہی یہ طریقہ کار درست ہے کہ ہم ایک فریق کو اسلحہ فراہم کرتے رہیں، اس کیلئے فنڈنگ کرتے رہیں اور یہ بھروسہ رکھیں کہ وہ مسئلہ حل کر دے گا، اس طرح یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کیلئے عالمی سطح پر ٹھوس اقدامات اور کوششوں کی ضرورت ہے، اسرائیل کے اتحادی کے طور پر امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جبکہ یورپی یونین اور عرب دنیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس مسئلہ کے حل کیلئے ہم سب کو اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔