ACROSS TT

News

Pakistan offers Bangladesh Karachi Port access to boost regional trade

In a landmark proposal during renewed talks in Dhaka, Pakistan invited Bangladesh to use Karachi Port for exports, seeking to revive dormant economic links and open alternative routes to China and the Gulf as regional alliances shift.

US seeks broader strategic partnership with Pakistan, says US Secretary of State Marco Rubio

US Secretary of State Marco Rubio has signalled a broader strategic relationship with Pakistan, expanding cooperation beyond counterterrorism into trade, economic growth and regional stability.

امریکہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات میں وسعت چاہتا ہے، امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے۔ تعاون کو انسدادِ دہشت گردی سے آگے بڑھا کر تجارت، معیشت اور علاقائی استحکام تک لے جانا امریکی ترجیحات میں شامل ہے۔

Pakistan’s Top General Makes First Bangladesh Visit in 54 Years as Regional Ties Shift

Pakistan’s Chairman of the Joint Chiefs of Staff Committee met Bangladesh’s chief adviser in Dhaka to discuss stronger economic and defence cooperation while highlighting regional security concerns. The visit is being viewed as a significant diplomatic step after more than five decades without a high-level military delegation.

پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں اہم پیش رفت، جنرل ساحر شمشاد مرزا کی چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقات

پاکستانی اعلیٰ عسکری قیادت کا 54 برس بعد بنگلہ دیش کا دورہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد مرزا کی ڈھاکہ میں چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقات۔ دفاعی، تجارتی اور علاقائی تعاون پر اہم گفتگو۔
Newsroomجنرل باجوہ اور جنرل فیض نے تحریکِ عدم اعتماد لانے کیلئے کہا...

جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے تحریکِ عدم اعتماد لانے کیلئے کہا تھا، مولانا فضل الرحمٰن

جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے تحریکِ عدم اعتماد لانے کیلئے کہا تھا، یہ تحریک پیپلز پارٹی نے چلائی تھی لیکن میں اس کے حق میں نہ تھا، تحریکِ انصاف کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی، اب فیصلے میدان میں ہوں گے۔

spot_img

اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں، ہم سڑکوں پر احتجاجی تحریک چلائیں گے، اب فیصلے ایوان میں نہیں بلکہ میدان میں ہوں گے، تحریکِ انصاف کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات چوری ہوئے ہیں اور کسی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے، تحریکِ انصاف کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے، ہم انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے، الیکشن 2018 میں بھی دھاندلی ہوئی تھی اور اب بھی دھاندلی ہوئی ہے، الیکشن میں دھاندلی کا فائدہ وہی اٹھاتا ہے جو اقتدار میں آتا ہے۔

قائدِ جمعیت کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کا فائدہ بظاہر مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے، میاں نواز شریف نے لاہور سے جو نشست جیتی ہے اس کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ نشست انہیں دی گئی ہے اور ممکن ہے کہ اسی وجہ سے میاں نواز شریف نے خود حکومت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے اور اس کام کیلئے شہباز شریف کو نامزد کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تحریکِ عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، عدم اعتماد کی تحریک پیپلز پارٹی چلا رہی تھی، جب سب کچھ ہو رہا تھا تو میں نے بھی قبول کیا کیونکہ اگر میں انکار کرتا تو سب کہتے کہ فضل الرحمٰن نے عمران خان کو بچایا ہے، جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید نے تمام سیاسی جماعتوں کو بلا کر کہا تھا کہ آپ تحریکِ عدم اعتماد لائیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید ہمارے ساتھ رابطے میں تھے، میرے پاس جنرل (ر) فیض حمید خود آئے اور کہا کہ آپ سسٹم میں رہ کر جو کرنا چاہیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن آؤٹ آف سسٹم کچھ نہیں کیجیے گا، میں نے جنرل (ر) فیض حمید کی اس بات کو مسترد کر دیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے قائدِ مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نواز شریف کا بہت زیادہ احترام کرتا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا، نواز شریف پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں، نواز شریف کو ملکی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، میں نواز شریف کی اصولی سیاست سے اختلاف نہیں رکھتا اور اسی لیے میں نے صرف مسلم لیگ (ن) جو دعوت دی ہے کہ آئیں میرے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں۔

تحریکِ انصاف سے متعلق بات کرتے ہوئے قائدِ جمعیت کا کہنا تھا کہ میرا عمران خان سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہے، تحریکِ انصاف کے ساتھ جسموں کا نہیں بلکہ دماغ اور سوچ کا فرق ہے اور یہ فرق ختم بھی ہو سکتا ہے، یہ فرق ختم ہو سکتا ہے یا نہیں اور اگر ہو گا تو کیسے ہو گا کے بارے میں ابھی کچھ نہیں جانتا اور نہ کچھ کہہ سکتا ہوں۔

وزارتِ عظمٰی کیلئے ووٹنگ سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اگر ہم کسی کو وزیراعظم کیلئے ووٹ دیتے تو مسلم لیگ (ن) کو دیتے لیکن اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی کو بھی ووٹ نہیں دیں گے، اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوئے ہیں تو پھر 9 مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں جو پارلیمنٹ وجود میں آ رہی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، اس پارلیمنٹ میں فیصلے کوئی اور کرے گا اور پالیسیز بھی کہیں اور سے آئیں گی، یہ پارلیمنٹ تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت والی پارلیمنٹ سے زیادہ ہائبرڈ ہو گی، یہ پارلیمنٹ ہائبرڈ پلس ہو گی، سب لوگ صرف مراعات کیلئے وہاں بیٹھے ہوں گے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے علم میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ شہباز شریف کسی وقت استعفیٰ دینے کیلئے تیار تھے اور ان کی تقریر بھی تیار تھی، ہو سکتا ہے کہ ایسا ہوا ہو لیکن میرے نوٹس میں ایسا کچھ نہیں ہے، اگر ایسا کچھ ہوتا تو وہ ضرور اجلاس بلاتے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ بات اتنی ہائی لائٹ نہ کی گئی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 2018 میں تحریکِ انصاف کی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے بنائی تھی اور پھر 2022 میں تحریکِ انصاف حکومت گرانے میں بھی اسٹیبلشمنٹ نے کردار ادا کیا تھا، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط کے حوالہ سے اس حمام میں سب ننگے ہیں، وہ ہمارے ملک کا حصہ ہیں اور ان سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ان کے ساتھ سودے بازی کی بات نہیں ہونی چاہیے، کوئی تو ہو جو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہو کر کہے کہ آپ غلط کر رہے ہیں۔

Read more

میاں نواز شریف! یہ ملک بہت بدل چکا ہے

مسلم لیگ ن کے لوگوں پر جب عتاب ٹوٹا تو وہ ’نیویں نیویں‘ ہو کر مزاحمت کے دور میں مفاہمت کا پرچم گیٹ نمبر 4 کے سامنے لہرانے لگے۔ بہت سوں نے وزارتیں سنبھالیں اور سلیوٹ کرنے ’بڑے گھر‘ پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ کارکنوں کو کوٹ لکھپت جیل کے باہر مظاہروں سے چوری چھپے منع کرتے رہے۔ بہت سے لوگ مریم نواز کو لیڈر تسیلم کرنے سے منکر رہے اور نواز شریف کی بیٹی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے۔

Celebrity sufferings

Reham Khan details her explosive marriage with Imran Khan and the challenges she endured during this difficult time.

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
spot_img

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

error: