اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی دوسری سماعت ہوئی ہے جس کو ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر کیا گیا جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط پر سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب کوئی اپنی مرضی عدالت پر ٹھونسنا چاہے تو یہ بھی مداخلت ہے، مداخلت صرف باہر سے نہیں ہوتی بلکہ مداخلت ادارہ کے اندر سے بھی ہو سکتی ہے، مداخلت آپ کے ساتھیوں، فیملی اور انٹیلیجنس ایجنسیز کی جانب سے بھی ہو سکتی ہے، ایک جج کی ججمنٹ اور آرڈرز بتاتے ہیں کہ کتنی مداخلت ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کے شکر گزار ہیں جنہوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو نافذ کیا کیونکہ ہم بطور عدلیہ اس میں ناکام ہو چکے تھے، چاہے جو مرضی ہو جائے عدلیہ کی آزادی کو ہر قیمت پر قائم رکھا جائے گا، میں نے چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ میٹنگ بلائی جو کئی برس سے منعقد نہیں ہوئی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے خط میں جو لکھا ہے کیا وہ ہائیکورٹ خود نہیں کر سکتی؟ اگر سپریم کورٹ ہائیکورٹ کو ہدایات دے گی تو کیا یہ آئین کے خلاف نہیں ہو گی؟ اور کیا یہ آزادیِ عدلیہ میں مداخلت نہیں ہو گی؟ عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے، پارلیمان کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، میرے کام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے۔
عدالتِ عظمٰی کے منصفِ اعظم نے کہا کہ یہ بات بھی کرنی چاہیے کہ عدلیہ کے اندر سے مداخلت ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے، کیا ایک چیف جسٹس جج کو بلا کر کہہ سکتا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ایسے کیا جائے؟ کسی بھی قسم کی مداخلت چاہے وہ عدلیہ کے اندر سے ہی ہو وہ آزادی عدلیہ کے خلاف ہوتی ہے، کچھ لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، ہم اس عدالت کی آزادی یقینی بنائیں گے، اندر اور باہر سے حملے نہیں ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ لوئر جوڈیشری کے بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں، کیا یہ مداخلت نہیں؟ جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے ہیں تو یہ بھی مداخلت ہے، جب ایجنسیز پر مشتمل جے آئی ٹی بناتے ہیں تو یہ بھی مداخلت ہے، مانیٹرنگ جج لگانا اور جے آئی ٹی بنانا بھی عدلیہ میں مداخلت ہے، میں بتا سکتا ہوں کہ کس طرح سے عدالت کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا گیا، یہ سارا معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس میں ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ معاملہ حل کریں، ہمیں مداخلت کے سامنے ایک فائر وال کھڑی کرنا ہو گی، ہمیں بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کرنا ہو گا اور طے کرنا ہو گا کہ اگر کوئی مداخلت کرتا ہے تو اس کے خلاف کیسے ایکشن لینا چاہیے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں جو دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔
ایک موقع پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ میں چار برس اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا اور اس دوران کوئی جرأت نہیں کر سکتا تھا کہ میری عدالت پر اثر انداز ہو سکے، شوکت صدیقی کیس کا اتنا بڑا فیصلہ تھا، کیا اس پر احتساب ہوا؟ قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے، انٹیلیجنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو ذمہ دار وزیراعظم اور کابینہ ہے، ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کی ساکھ بھی برقرار رکھنی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کی ذاتی تفصیلات سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں، جوڈیشل کمیشن میٹنگ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے گرین کارڈ کے بارے میں بھی ڈسکشن کی گئی، ریاست کو ججز اور عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کرنا ہو گی۔
بعدازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت 7 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ہر فریق کو سننا مشکل ہو جائے گا، تمام فریقین تحریری معروضات دے دیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط پر سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس کیس کی دوسری سماعت کے حکمہ نامہ میں کہا گیا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے جبکہ دونوں بارز کو آئندہ سماعت تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پانچ ہائیکورٹس نے اپنی تجاویز سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہیں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں، آئندہ سماعت سے پہلے جواب داخل کیے جائیں گے، اگر بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز ایک ساتھ ایک جواب لے کر آئیں تو یہ زیادہ معاون ثابت ہو گا، متفقہ نکات کے ساتھ ساتھ غیرمتفقہ نکات الگ سے فائل کیے جا سکتے ہیں۔