میرے بچپن کی یادوں میں پی ٹی وی کا بہت خاص حصہ ہے اور شاید اکیسویں صدی کے آغاز سے پہلے نوجوانی کی سرحدوں میں داخل ہونے والے ہر پاکستانی کی یادوں میں پی ٹی وی پر چلنے والے پروگرامز آج بھی نقش ہوں گے۔ پی ٹی وی پر ہمیشہ ہر دن بہت جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ یومِ پاکستان آتا تو پی ٹی وی سبز اور سفید رنگ میں رنگا جاتا اور آزادی کے نغمے اور تاریخِ آزادی کے پروگرامز سے روح کو گرمایا جاتا۔ اسی طرح 6 ستمبر آتا تو شہداء کی تصاویر اور جنگ کے واقعات لہو میں جوش بھر دیتے تھے۔ میلاد النبی (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) کے موقع پر نعتیہ مقابلے اور اسلامی تاریخ و سیرتِ نبوی (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروگرامز جذبہِ دین کو بڑھا دیتے۔ محرم الحرام کی شروعات کے ساتھ ہی ہر طرح کا میوزک سکرین سے غائب ہو جاتا، بغیر میوزک کے اشتہارات چلتے اور مذہبی پروگرامز شہادتِ حُسین (رضی اللّٰه عنہ) کی یاد تازہ کر دیتے۔ الغرض ہر دن اور ہر تہوار اسی موقع کی مناسبت سے منایا جاتا تھا۔
انھی دنوں اور تہواروں میں ایک دن یومِ قائد کا بھی ہوتا تھا اور اس دن کی ابتداء ایک خوبصورت نغمے سے ہوتی تھی جسے بینجمن سسٹرز اور سجاد علی نے گایا تھا؛ اے روحِ قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں تجھ سے وعدہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بہت ہی خوبصورت نغمہ جسے سن کر روح تک پرجوش ہو جائے لیکن یہ جوش آج تک بس نغمے میں ہی نظر آیا، عملی طور پر تو ہم نے نہ کوئی وعدہ پورا کیا اور نہ ہی پاکستان کو ویسا بنایا جیسا ایک آزاد، خودمختار، جمہوری و عوامی ریاست کو ہونا چاہیے تھا جبکہ ساتھ تڑکے کے طور پر اسلامی بھی لکھا جاتا ہے۔
ابھی گزرے کل ہی ہم نے ایک دن منایا اور ہم دن ہی تو منایا کرتے ہیں اور کرتے ہی کیا ہیں؟ کوئی یومِ سیاہ ہو گیا، کوئی یومِ نجات ہو گیا، کسی کو یومِ تشکر کا نام دے دیتے ہیں اور کوئی یومِ یکجہتی کہلاتا ہے۔ چند روز پہلے بھی ہم نے ایک دن بھرپور ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا اور وہ دن تھا 9 مئی کا دن، نو مئی 2023 کے دن تحریکِ انصاف نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ٹارگٹڈ احتجاج کیا جبکہ ان کا نشانہ عسکری تنصیبات اور فوجی گاڑیاں رہیں اور اس متشدد احتجاج سے پاکستان کو دنیا بھر میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور ملکی وقار مجروح ہوا۔
ایک سال پورا ہونے پر ‘نو مئی دوبارہ نہیں’ کے سلوگن کے ساتھ یہ دن منایا گیا اور بتانے کی کوشش کی گئی کہ عسکری تنصیبات پر حملہ خاص طور پر یادگارِ شہداء کی بےحرمتی انتہائی افسوس ناک ہے کیونکہ شہدا کسی بھی ملک کا فخر ہوتے ہیں۔ جہاں یہ دن یومِ سیاہ کے طور پر منایا گیا وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جاتا رہا کہ آخر 9 مئی کے ملزموں پر ابھی تک جرم ثابت کر کے سزائیں کیوں نہیں دی گئیں؟ اگر متشدد احتجاج کرنے والوں، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کا جرم اتنا ہی سنگین اور ریاست مخالف تھا بلکہ ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ 9 مئی ریاست سے بغاوت تھی تو پھر ابھی تک مجرم آزاد کیوں ہیں؟ ایک صاحب تو اب ملک کے ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ بھی کہلاتے ہیں۔
یہ سوالیہ آوازیں عوام کی طرف سے اُٹھیں یا ان طبقات کی طرف سے آئیں جن کا حکومتی، انتظامی اور سیکورٹی معاملات سے کوئی تعلق نہیں تو پھر بھی حق بنتا ہے لیکن سزا نہ ملنے کا نوحہ وزیراعظم، چیف آف آرمی سٹاف، ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیرِ دفاع بھی پڑھتے رہے اور سوال اٹھایا گیا کہ ہمیں بتایا جائے کہ 9 مئی کیوں ہوا اور اس کے محرکات کیا تھے؟ مجرموں کا تعین کر کے ابھی تک قانون کی گرفت میں کیوں نہیں لایا جا سکا؟ یقیناً یہ دنیا کا واحد ملک ہو گا جہاں بااختیار و برسرِ اقتدار اور وسائل و طاقت سے مالا مال ریاست کی حکمران اشرافیہ واقعہ کے ایک سال بعد بھی بےبسی سے سوال کرنے پر مجبور ہے۔
خیر یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے کہ جب ہم نے دن ہی منایا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ ہو یا سانحہ اے پی ایس، قتلِ لیاقت علی خان ہو یا قتلِ بےنظیر بھٹو، کارگل ہو یا سقوطِ کشمیر، اوجڑی کیمپ ہو یا 12 مئی وکلاء کا قتلِ عام اور ایسی ان گنت مثالیں دی جا سکتی ہیں جن کے دن تو ہم یاد رکھتے ہیں لیکن کبھی ان حادثات و واقعات کی نتیجہ خیز وجوہات سامنے نہیں آئیں اور نہ ہی کسی مجرم کا تعین کر کے اسے سزا دی گئی۔ شاید اسی لیے یہاں کسی بھی گروہ کے لیے کسی بھی احتجاج، ریلی، دھرنے اور جلسے کو متشدد بنانے میں دیر نہیں لگتی۔
ہم اس ریاست کے باسی ہیں جہاں اپنے شہداء کو دن منا کر بیچا جاتا ہے اور مجرموں کو جیل اور سب جیل میں سہولیات کے ساتھ ساتھ زندگی کی وہ تمام نعمتیں فراہم کی جاتی ہیں جن کا تصور بھی ایک عام آدمی نہیں کر سکتا۔ کیا ہم کبھی جذباتی باتوں، نعروں اور دعوؤں سے آگے بڑھ کر کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں گے یا حکمران اشرافیہ، عسکری و سیکیورٹی ادارے اور انصاف کی کرسی پر براجمان عزت مآب منصف اپنے اپنے مفادات اور پسند ناپسند کی بنیاد پر بس نعروں، وعدوں اور دعوؤں پر ہی عوام کو لبھاتے اور بہلاتے ہوئے لہو گرما دینے والے ملی نغموں کے ساتھ دن مناتے رہیں گے؟
کیا کبھی وہ دن بھی آئے گا جب یہ بول حقیقت کا روپ دھاریں گے کہ ’اب کہہ نہ سکیں گے ارض و سماں ہم دن ہی منایا کرتے ہیں‘؟ شاید کبھی نہیں کیونکہ نہ تو عوام اپنے حقیقی مسائل پر بات کرنے اور آواز اٹھانے کا شعور رکھتے ہیں اور نہ سیاستدان ہی بغیر کسی ڈیل اور بغیر کسی مفاہمتی یادداشت کے حکمران بنتے ہیں، نہ عسکری ادارے کے دماغ سے خواہشِ اختیار و اقتدار ختم ہوتی ہے اور پھر عدلیہ کے تو کیا ہی کہنے۔۔۔! عدلیہ کی تعریف کے لیے یہی کافی ہے کہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ رُول آف لاء انڈکس میں شامل 142 ممالک میں پاکستان 130ویں نمبر پر ہے اور 130ویں نمبر پر ہو بھی کیوں نہ؟ جب وہ ملک جس کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ آتا ہو؛ وہاں عدالتیں مارشل لاء کے لیے سہولت کاری کریں؛ نظریہ ضرورت کے تحت آئین شکنی کو جائز قرار دیں؛ ایک مجرم کو گڈ ٹو سی یو کہیں؛ ریاستی و عسکری تنصیبات پر حملہ آوروں کو تھوک کے حساب سے ضمانتیں دیں؛ خدیجہ شاہ جیسی اشرافیہ کی نمائندہ کو تو چھوڑ دیں لیکن عام ورکر کو پابندِ سلاسل رکھیں، عوام کی متشدد ذہن سازی کرنے والے کو جیل میں ہر طرح کی سہولیات مہیا کریں تو پھر اس ریاست کے باسی بس دن ہی منایا کرتے ہیں۔