لاہور (تھرسڈے ٹائمز) — وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے قرآن پاک کی بے حرمتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعات دل کو بہت تکلیف پہنچاتے ہیں اور ہمیں ان کی روک تھام کے لیے مل کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مریم نواز نے زور دیا کہ ہمیں ان واقعات کی وجوہات جاننی چاہئیں کہ یہ کیوں بڑھ رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ کئی مرتبہ توہین مذہب کے الزامات کو ذاتی حساب چکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ ایک غلط رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بغیر کسی ثبوت کے کسی پر الزام لگانا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ایک بہت بڑا جرم ہے اور اس سے کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہ سکتی۔
مریم نواز نے کہا، میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ دین اور اسلام سے محبت، دین کے احکامات پر عمل اور نبی کریم ﷺ سے محبت میرے خون میں شامل ہے۔ جب میرے والد کو نااہل کیا گیا اور میں اپنی والدہ کی الیکشن مہم چلا رہی تھی، تو چند افراد کی جانب سے جن الزامات کا سامنا کرنا پڑا، وہ ایک تکلیف دہ عمل تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کرسی پر بٹھایا ہے اور انصاف کرنا میرا فرض ہے۔ جب بھی کوئی ایسا معاملہ میرے سامنے آتا ہے اور جرم کی تصدیق ہوجاتی ہے، تو پھر وہ شخص چاہے مسلمان ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو یا کچھ اور، وہ مجرم بن جاتا ہے اور اس کو اس کے کیے کی سزا ملنی چاہیے۔
ایک بچے کے ساتھ زیادتی کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مریم نواز نے بتایا کہ ایک مذہبی شخصیت کے جرم ثابت ہونے پر جب پولیس نے اسے پکڑا تو اس کو مذہبی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کے بعد ان کے خلاف فتوے جاری کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ جو شخص مذہب کو بدنام کرتا ہے، وہ سب سے بڑا مجرم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرآن اور مذہب کی توہین کی بہت زیادہ شکایات آرہی ہیں جن پر ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ ایسے واقعات کی تفصیل میں جائے بغیر اچانک اعلان کر دیا جاتا ہے اور پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی لوگ جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارت شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر ہمیں بہت زیادہ توجہ دینے اور تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔
بچیوں کے اسکول جانے کے حوالے سے فتوے جاری کرنے والوں پر بات کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا، ہم سب جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے اس بارے میں کیا احکامات ہیں اور کیا احادیث مبارکہ ہیں۔ اس کے مخالف جا کر فتوے جاری کرنا بذات خود ایک بڑا جرم ہے جس کی روک تھام ہمارا فرض ہے۔
مریم نواز نے ہتک عزت کے قانون پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی آج پاکستان میں جتنی ضرورت ہے، اس سے قبل شاید کبھی نہ تھی۔ جس کے ہاتھ میں مائیک ہے، وہ سمجھتا ہے کہ جس پر چاہے غلط الزام لگا دے اور پگڑی اچھال دے۔ ہتک عزت قانون پر اعتراض کرنے کا کیا مطلب ہے کہ ہم ہتک کریں گے لیکن ہمیں سزا نہ دی جائے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو کوئی غلط الزام لگائے، اسے سزا ملنی چاہیے۔ ہمارا دین بھی کہتا ہے کہ تہمت لگانا غلط ہے اور اس کی سزا ہے۔
میڈیا کے کردار پر بات کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا، میڈیا کا بہت احترام ہے اور میڈیا کا مثبت کردار بھی ہے، لیکن میڈیا سمیت کسی کو بھی بغیر ثبوت کے کسی کی عزت اور پگڑی اچھالنے، تہمت لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہتک عزت قانون کے تحت اگر الزام لگانے والے کے پاس ثبوت نہیں اور اس نے بدنیتی سے الزام لگایا ہے تو اس کو سزا ملے گی۔ ہر مہذب معاشرے میں یہ قانون موجود ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ بیماری اسی لیے پھیلی ہے کیونکہ اس کی سزا موجود نہیں ہے۔
مریم نواز نے کہا، مجھ پر ہتک عزت قانون کے بارے میں جتنی مرضی تنقید کریں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں اس کرسی پر کب تک ہوں، اللہ جانتا ہے، لیکن یہ قانون صرف میرے لیے نہیں ہے، یہ ہر آنے والے کے لیے ہے۔ لوگوں کی ذاتی مخالفت اور نفرت سیاست میں کسی کی عزت تار تار نہیں ہونی چاہیے۔