اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سینئر صحافی اور اینکر ابصار عالم نے کہا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید نے آئی ایس آئی کے متوازی اپنا ایک سسٹم بنا کر ڈیپ اسٹیٹ بنائی ہوئی تھی جو ریاست کے چاروں ستون کنٹرول کرتی تھی۔
سابق چیئرمین پیمرا اور مصروف صحافی ابصار عالم نے ایک نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) جنرل (ر) فیض حمید نے آئی ایس آئی کے متوازی اپنا ایک علیحدہ سسٹم قائم کر کے ڈیپ اسٹیٹ بنائی ہوئی تھی جو ریاست کے چاروں ستونوں پارلیمنٹ، عدلیہ، ایگزیکٹو اور میڈیا کو کنٹرول کرتی تھی۔
اس موقع پر سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) کے سابق سربراہ ظفر حجازی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پانامہ بنچ میں شامل سپریم کورٹ کے جج عظمت سعید نے اُس وقت کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو عدالت میں کہا کہ آپ کے پیچھے جو شخص (ظفر حجازی) کھڑا ہے اصل مسئلہ اس نے بنایا ہوا ہے، وہ جے آئی ٹی میں حماد اظہر کے کزن بلال رسول کو لگانا چاہتے تھے، عظمت سعید اور اعجاز الاحسن آپے سے باہر ہوئے بیٹھے تھے، وہ اسحاق ڈار کو سزا دینا چاہتے تھے، ان کی جانب سے کہا گیا کہ ظفر حجازی نے کسی کے کہنے پر ٹیمپرنگ کی ہے۔
پروگرام میں موجود صحافی اعزاز سید نے کہا کہ جنرل (ر) فیض حمید جب آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے تو پارلیمنٹ کیلئے کرنل لیاقت کو بہت طاقتور بنایا گیا تھا، پارلیمنٹ میں آئی ایس آئی کا دفتر بنایا گیا جہاں انٹیلیجنس اہلکار بیٹھتے اور کارروائی ریکارڈ کرتے تھے، یہی کرنل لیاقت سپریم کورٹ میں بھی ایکٹو تھا اور پیمرا میں مداخلت کیلئے بھی اسی کا نام آتا ہے۔
اعزاز سید کا کہنا تھا کہ جب جنرل (ر) فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو سینٹ مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں تھا، اُس وقت صادق سنجرانی کو چیئرمین بھی فیض حمید نے ہی بنوایا تھا جبکہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد بھی ناکام کروا دی گئی، اُس وقت سینیٹ میں کیمرے بھی پکڑے گئے مگر ان کی تحقیقات نہیں ہونے دی گئیں، اگر تحقیقات ہو جاتیں تو کرنل لیاقت کے ساتھ ساتھ جنرل فیض حمید بھی پکڑے جاتے۔
ابصار عالم نے بتایا کہ جنرل (ر) فیض حمید جیو نیوز اور ڈان نیوز کو بند کرنا چاہتے تھے لیکن جب تک میں چیئرمین پیمرا تھا تب تک وہ ایسا نہ کر سکے، جب مجھے ہٹا دیا گیا تو اس کے بعد ان دونوں چینلز کی نشریات کو بند کر دیا گیا تاکہ میڈیا پالیسی پر قبضہ کیا جا سکے۔
اعزاز سید نے انکشاف کیا کہ جب جیو نیوز کی نشریات کو بند کیا گیا تو میر شکیل الرحمن بہت زیادہ پریشان تھے، جیو نیوز کی نشریات کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو جنرل (ر) فیض حمید کی جانب سے چار شرائط رکھی گئی جن میں سے پہلی شرط یہ تھی کہ میاں نواز شریف کو چور کہا جائے، دوسری شرط تھی کہ عمران خان کی تعریفیں کی جائیں، تیسری شرط تھی کہ عدلیہ کے کسی فیصلے پر تنقید نہ کی جائے جبکہ چوتھی شرط میں کچھ صحافیوں کے منہ بند کرنے یا نکالنے کا کہا گیا تھا۔
ایس ای سی پی کے سابق سربراہ ظفر حجازی کا کہنا تھا کہ فیض حمید کا نیٹ ورک صرف پارلیمنٹ اور عدلیہ تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ بہت وسیع نیٹ ورک تھا، میں نے جنرل (ر) فیض حمید کی بات ماننے سے انکار کیا تو میرے خلاف وکلاء کا ایک گروہ متحرک کر دیا گیا، میڈیا کو ایسے مینیج کیا گیا کہ سارا میڈیا میرے پیچھے پڑ گیا اور مجھے منظم طریقہ سے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، میرے چھوٹے بیٹے کو پکڑ کر تشدد کر کے لہو لہان کر دیا گیا، مجھے گرفتار کر کے میرے خلاف گواہ تیار کیے گئے اور ہمارے دفتر میں لوگ مسلسل وہ ہیرے تلاش کرنے آتے رہے جو بعد میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی میں شامل کیے۔
ظفر حجازی نے کہا کہ پاکستان کو کام کرنے والوں کی ضرورت ہے، اللّٰه تعالیٰ نے پاکستان کو بہت کچھ دیا ہے، میاں نواز شریف کے دور میں ایک ڈیفالٹ ہوتے مُلک کو تین برس میں اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا گیا تھا لیکن پھر انہیں کام نہ کرنے دیا گیا۔
ابصار عالم نے کہا کہ جنرل (ر) فیض حمید، اس کی ڈیپ اسٹیٹ اور عمران خان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے جن دہشتگردوں کو پاکستان لا کر بسایا ان فیصلوں کے نتیجہ میں آج ہماری قوم کے جوان انھی کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں سے لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔