اسلام آباد—فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تحریکِ انصاف کی حکومت چلتی رہتی تو 5 سالہ مدت مکمل ہونے تک پاکستان معاشی طور پر تباہ ہو جاتا، ہم معیشت کو مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچانے کیلئے عمران خان کو مشورے دیتے تھے مگر وہ انہیں نظر انداز کر دیتے تھے، وہ معیشت کے متعلق کچھ سننے کے موڈ میں ہی نہیں تھے۔
شبر زیدی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے جب عمران خان کو بتایا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے اور اس بارے میں تمام حقائق ان کے سامنے بیان کیے تو انہوں نے اس وقت کے وزیرِ خزانہ اسد عمر کو فون کر کے کہا کہ “تم نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہونے والا ہے” تو اسد عمر نے جواب دیا کہ “سر میں سمجھا آپ کو پتہ ہو گا” اور پھر چند روز بعد اسد عمر کو وزارتِ خزانہ سے ہٹا دیا گیا۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ سابق وزیراعظم مجھے بلا کر مسلم لیگ نواز کے اراکینِ اسمبلی کی ٹیکس فائلز فراہم کرنے کا کہتے تھے جبکہ ان کے مشیرِ داخلہ و احتساب شہزاد اکبر بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے، عمران خان اور شہزاد اکبر مجھے بطور چیئرمین ایف بی آر مسلم لیگ نواز کے اراکینِ اسمبلی کے خلاف جھوٹے مقدمات چلانے کا کہتے تھے مگر میں انہیں جواب دیتا تھا کہ یہ مقدمات نہیں بن سکتے کیونکہ ان فائلز میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ کوئی بھی حکومت زرعی انکم ٹیکس میں دلچسپی نہیں رکھتی جبکہ سندھ میں تو ایگریکلچر انکم ٹیکس کا ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں ہے، میں نے ملتان کے ایک بڑے زمیندار کو نوٹس بھیجا تو شاہ محمود قریشی کی قیادت میں 46 ارکانِ اسمبلی دباؤ ڈالنے کیلئے پہنچ گئے۔ نصر اللّٰہ دریشک نامی ایک رکنِ قومی اسمبلی نے مجھے کہا کہ ہم جنوبی پنجاب کے ایم این ایز ہیں اور ہمارے بغیر حکومتیں نہیں چل سکتیں، تم ابھی بچے ہو، یہ کام تمہارے بس کا نہیں ہے لہذا تم اس کو چھوڑ کر چلے جاؤ۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین نے کہا کہ ہم نے تمباکو مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی تو قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے متعدد ارکانِ قومی اسمبلی کے ہمراہ آئے اور کہا کہ ہم یہ ٹیکس نہیں دے سکتے، ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں صرف فیکٹریوں کو رجسٹر کرنے دیں تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے علاقوں میں داخل ہی نہیں ہو سکتے۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ہم نے قبائلی علاقوں میں سٹیل ری رولنگ ملز پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو فاٹا سے تعلقات رکھنے والے 20 سینیٹرز ہمارا کام رکوانے کیلئے عمران خان کے پاس پہنچ گئے، عمران خان نے مجھے کہا کہ یہ کام روک دو مگر میں نے عمران خان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ جب کوئٹہ میں اسمگلنگ کو روکنے کی کوشش کی تو کور کمانڈر کوئٹہ میرے پاس آئے اور کہا کہ اس معاملہ میں ہاتھ ہلکا رکھیں کیونکہ یہاں کے لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی روزگار نہیں ہے، اگر اسمگلنگ کو ختم کردیا تو ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پراپرٹی پر سو فیصد ٹیکس لگایا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ہمارے لوگوں کا تو کام ہی پلاٹ آگے پیچھے کر کے فروخت کرنا ہے اور اس ٹیکس سے ان کا کاروبار ہی ختم ہو رہا ہے اور دکانیں بند ہو گئی ہیں لہذا یہ ٹیکس 70 فیصد کر دو۔
شبر زیدی نے بتایا کہ ریٹیلرز کے ساتھ ڈیڈ لاک ہوا تھا، ریٹیلرز اور آڑھتیوں کا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، ریٹیلر ایک بازار مافیا ہے اور ان کو ہاتھ ڈالا جائے تو شٹرز بند کر دیئے جاتے ہیں، ہماری کوئی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ شٹرز پاور سے لڑ سکے اور اگر آپ شٹرز پاور سے لڑنے کو تیار نہیں ہیں تو ٹیکس کا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا، کراچی میں ٹریڈرز نے میرے ساتھ فزیکلی بدتمیزی کی اور کہا کہ بازار میں کوئی بھی آپ کو ٹیکس نہیں دے گا۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقہ ایکسپورٹرز اور ریٹیلرز سے 200 فیصد زیادہ ٹیکس دے رہا ہے، ریٹیلرز کا معیشت میں حصہ 19 فیصد مگر ٹیکس میں حصہ زیرو اعشاریہ چار فیصد ہے، ڈی جی سی کے ساتھ میٹنگ میں ٹریڈرز کے نمائندے موجود تھے، ٹریڈرز کا ایک نمائندہ کھڑا ہوا اور کہا کہ میں 100 روپے سیل پر 50 پیسے ٹیکس دیتا ہوں لیکن مجھ سے 100 روپے سیل پر 10 یا 15 روپے ٹیکس مانگا جا رہا جو کہ میں نہیں دوں گا چاہے آپ جو مرضی کر لیں۔
شبر زیدی نے بتایا کہ ٹریڈرز کے نمائندے کی بات کے بعد مجھے اس کام سے روک دیا گیا اور کہا گیا کہ ایک دو ماہ ڈیفر کریں، بعد میں جو معاہدہ ہوا وہ بھی بہت کمزور تھا، اس بارے میں عمران خان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ میں فی الوقت مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی وجہ سے خوفزدہ ہوں۔
شبر زیدی نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد اب رواں برس دسمبر تک ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہے البتہ اس کے بعد خطرات ہو سکتے ہیں۔