ہر خاموشی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔
میاں صاحب نے بھی اپنی خاموشی کی قیمت وصول کی ہے اور یہ بات جتنی جلدی اور جتنی اچھی طرح سے سمجھ لیں اتنا بہتر ہے کیونکہ پھر ہمیں نہ تو میاں صاحب کے حکومت نہ لینے پر افسوس ہو گا، نہ شہبازشریف کابینہ پر اعتراض ہو گا اور نہ ہی ہم کسی کے الیکشن ہارنے اور جیتنے میں سازش کے کوئی پہلو تلاش کریں گے۔
پاکستانی سیاست آج بھی ڈرائنگ روم فیصلوں کی محتاج ہے۔ اگرچہ میاں صاحب نے کہا تھا کہ اب کوئی فیصلہ ڈرائنگ روم میں نہیں ہو گا بلکہ عوام کے سامنے ہو گا لیکن یہ نعرہ حقیقت نہیں بن سکا کیونکہ اس ملک کے حقیقی حکمران ایسا ہونے نہیں دیتے اور ان کی مرضی کے بغیر یہاں کوئی سیاست کر نہیں سکتا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن بہرحال پاکستان میں سیاست کبھی ڈرائنگ روم سے باہر آ ہی نہیں سکی۔
خیر بات ہو رہی تھی خاموشی کی قیمت وصولی کی تو میاں صاحب نے یہ قیمت اپنی بیٹی کے لیے سسٹم میں گنجائش حاصل کرنے کی شکل میں وصول کی۔ اگرچہ مریم نواز کا اپنا بھی ایک سیاسی سفر ہے اور گزرے سالوں میں جب انہیں اپنے باپ کی کمزوری سمجھا گیا تو انہوں نے جھکنے یا کوئی دباؤ قبول کرنے کی بجائے فرنٹ سے قیادت کی اور خود کو بطور مزاحمتی سیاستدان کے منوایا۔ مریم نواز کی مزاحمتی سیاست سے مفاہمت اور انتخابی سیاست کے جو دروازے ن لیگ پر کھلے وہ میاں صاحب کی سیاسی بصیرت کا شاخسانہ ہیں۔ پھر میاں صاحب نے صرف بیٹی ہی کے لیے نہیں اپنے بھائی اور اپنے نام سے بنی مسلم لیگ کے لیے بھی اقتدار میں وہ جگہ حاصل کی جہاں سے ن لیگ اور شریف برادران پر کراس لگا کر انہیں نکالا گیا۔ اگرچہ یہاں بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہبازشریف کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کارکردگی اور گڈ گورنس (جس کا اعتراف دیگر ممالک بھی کرتے ہیں اور انہیں شہباز سپیڈ کے نام سے جانا جاتا ہے) بذاتِ خود شہبازشریف کے لیے مرکز میں اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بن سکتے تھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ووٹ بینک نوازشریف کا ہے اور 8فروری انتخابات سے پہلے جو حالات تھے ان میں میاں صاحب ہی مسلم لیگ ن کو عوام میں مقبولیت دلوا سکتے تھے۔ اب فیصلہ میاں صاحب کے ہاتھ میں تھا کہ وہ خود وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے لیے معاملات طے کرتے یا اپنا سیاسی اثاثہ اگلی نسل کو منتقل کر دیتے۔
میاں صاحب اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اگر وہ ایک بار پھر وزیراعظم بن بھی گئے تو کیا ہو گا؟ پھر کسی معاملے پر اختلاف؛ پھر کوئی ایسا ایشو جو اعصاب شکن ہو یا شاید کوئی ایسی ڈیمانڈز جو پوری کرنا ممکن نہ ہوں۔
ہو سکتا ہے ایسا کچھ نہ ہوتا لیکن یقیناً میاں صاحب عمر کے اس حصے میں رسک لینے کو تیار نہیں ہوں گے۔ انہوں نے ذرا بہتر گراؤنڈ پر کھیلنا مناسب سمجھا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں میاں صاحب کی بیٹی حکمران ہے اور اگر وہ بہتر طریقے سے ڈلیور کر جاتی ہے، سسٹم میں ایسی تبدیلیاں کر دیتی ہے جو دور رس اور دیر پا نتائج کی حامل ہوں اور عوام کا معیارِ زندگی بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے تو یقیناً آنے والا وقت مریم نواز کا ہو گا اور مزید آگے قدم بڑھاتے ہوئے مستقبل میں پاکستان کی وزیراعظم بن سکتی ہے۔
مرکز میں مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت ہے جس کی کمان میاں صاحب کے بھائی شہبازشریف کے پاس ہے۔ شہبازشریف مفاہمت کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور بہترین گورنس ان کی پہچان ہے۔ اگر اپنی ان خصوصیات کی بنیاد پر وہ پانچ سال کامیابی سے گزار دیتے ہیں اور معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ ملک کو درپیش دیگر چیلنجز سے بطریقِ احسن نپٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ مسلم لیگ ن کا ایک اور کریڈٹ ہو گا جو یقیناً آنے والے وقت میں مریم نوازشریف کے کام آئے گا۔
گزرے سات سالوں میں اسٹیبلشمنٹ کے ایڈونچر نے ملک کو جو نقصان پہنچایا ہے اسے دیکھتے ہوئے توقع تو یہی ہے کہ مزید کوئی ڈاکٹرائن لانچ نہیں ہو گی اور حکومت کو اپنا کام کرنے کی آزادی دی جائے گی ویسے بھی تجربے کی ناکامی اور ناکامی کے اثرات سے محکمے کو جو اندرونی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کے تصور کو جو زک پہنچی ہے وہ یہ خوش آئند خیال ضرور دیتا ہے کہ مداخلت نہیں ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ ایسی کوئی گارنٹی بھی دی گئی ہو۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ مفروضہ ہی درست لگتا ہے کہ میاں صاحب نے چوتھی دفعہ کے وقتی احساسِ تفاخر کو پس پشت رکھتے ہوئے اپنے لیے بہتر راستے کا انتخاب کیا ہے۔ میاں صاحب اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ تقریباً نصف صدی پر محیط ان کے سیاسی سفر کا خوش آئند اختتام یہی ہو سکتا ہے کہ اپنا سیاسی اثاثہ اپنی اگلی نسل کو منتقل کر دیں اور خود کو صرف بوقتِ ضرورت مشورہ دینے تک محدود رکھیں یا اپنے سیاسی سفر کی یادداشتیں قلم بند کریں؛ لیکن یہ کہنا بھی قبل از وقت ہی ہو گا کیونکہ کہتے ہیں کہ سیاستدان کبھی ریٹائر نہیں ہوتا تو میاں صاحب کو وزیراعظم دیکھنے کے خواہش مندوں کو بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
جہاں تک سازشی تھیوریز کا تعلق ہے تو وہ ہر دور میں چلتی ہی رہی ہیں اور چلتی رہیں گی کیونکہ ان تھیوریز سے بہت سے افراد کا رزق بندھا ہے، یہ تھیوریز ریٹنگ دیتی ہیں؛ لائکس اور ویوز دیتی ہیں اور باخبر و متعلق ہونے کا زعم بھی برقرار رہتا ہے۔ میں بہرحال یہ ماننے کو تیار نہیں کہ میاں صاحب جیسا جہاں دیدہ سیاستدان کسی سازش کا شکار ہو کر سسٹم سے باہر ہو چکا ہے بلکہ میرا ماننا ہے کہ میاں صاحب نے اپنے نام سے بنی مسلم لیگ اور اپنی بیٹی کے لیے مستقبل میں کامیابی حاصل کرنے کا دروازہ کھول دیا ہے اور یہی وہ قیمت ہے جو میاں صاحب نے وصول کی ہے۔ ویسے بھی حکومت سازی کے سارے عمل میں میاں صاحب کو خوش دلی سے شریک دیکھ کر بھی یہی نظر آتا ہے کہ وہ اس سارے عمل سے خوش ہیں اور جو ہو رہا ہے ان کی منشا اور مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔
Zabardast
بلکل مریم نواز کی وجہ سے میاں صاحب بیک فٹ پر چلے گئے یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ یہ فیصلہ کرنا اچھا تھا اور کتنا برا۔
بالکل درست فرمایا آپ نے